ریڈیو ٹی این این

تازہ ترین 
  • ‘بہت زیادہ غیر ملکی لیگز کھلاڑیوں کیلئے فٹنس مسائل کا باعث بن رہی ہیں’چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ بہت زیادہ غیر [...]
  • بچوں سے زیادتی اور قتل میں بااثر لوگ ملوث ہیں۔ عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ بچوں سے زیادتی اور قتل [...]
  • الحاج فاؤنڈیشن کے زیراہتمام خیبرایجنسی میں چینی زبان کی کلاسز کا اجراءسی پیک میں قبائلی طلبہ کی شمولیت یقینی بنانے کیلئے خیبرایجنسی میں چینی زبان سیکھنے [...]
  • نقیب قتل کیس، انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ اے ڈی خواجہ، غلطی نہیں کی تو گرفتاری کیوں دوں۔ راو انوار آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ نقیب اللہ کیس میں انصاف [...]
  • ایف آر کوہاٹ، کوئلے کی کانوں کا قضیہ حل کر دیا گیاایف آر کوہاٹ میں گزشتہ چار سالوں سے جاری کوئلے کی کانوں کا قضیہ حل [...]
  

بدلون

قبائلی علاقوں تک پشاور کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو توسیع دینے کی تجویز

قبائلی علاقوں تک پشاور کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو توسیع دینے کی تجویز
October 15, 2017

👤by Shan Muhammad

قبائلی علاقوں میں انتظامی تبدیلی اور ایف سی آر کے خاتمے کے لئے ستمبر 2015ء سے قومی اور مقامی سطح پر کوششیں جاری ہیں مگر سیاسی اختلافات کی وجہ سے تا حال اس کا کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آسکا ‘ دوسری جانب نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے آتے ہی فاٹا اصلاحات کا معطل عمل رواں سال ستمبر میں ا یک بار پھر بحال کردیا گیا ‘ وفاقی کابینہ کے بارہ ستمبر کے اجلاس میں قبائلی علاقوں تک سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے کی تجویز بھی سامنے آئی ‘پشاور ہائی کورٹ قبائلی علاقوں کے قریب ہونے کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ فاٹا تک بڑھانے کی اس تجویز کو جہاں فاٹا کے اکثر پارلیمنٹرینز نے مسترد کردیا ہے تو دوسری جانب خیبر پختونخوا اور فاٹا کے مقامی عمائدین کی جانب سے بھی اس پر شدید تنقید کی گئی ہے ‘ لیکن بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کا خیر مقدم بھی کیا گیا ہے ‘ عوامی نیشنل پارٹی باجوڑ ایجنسی کے مقامی عہدیدار شیخ جہانزادہ کا کہنا ہے کہ عدالتی نظام کی فاٹا تک توسیع احسن اقدام ہے مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو فاٹا تک توسیع دینے سے حکومت کی نیت کا فتور سامنے آگیا ہے ‘ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں فاٹا تک توسیع اور ایف سی آر کا خاتمہ اچھا ہوگا مگر قبائلی علاقوں کو براہ راست اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت کرنے سے حکمرانوں کی بدنیتی عیاں ہوگئی ہے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ جرگہ کو مزید مضبوط کیا جائے ‘ کیونکہ جرگہ پشتوں سے ہمارا ایک تسلیم شدہ نظام ہے ‘ چاہئے یہ کہ پشاور ہائی کورٹ کو قبائلی علاقوں تک توسیع دی جائے اور حکمران اپنی نیتوں کو درست کریں ۔


دوسری جانب مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی فاٹا کے امیر سردار خان نے بھی اس تجویز کو مسترد کردیا ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ قبائلی عوام کے خلاف الگ سے ایک سازش ہے تاکہ وہ ایک بار پھر ایف سی آر کے نظام کی بحالی کے مطالبے پر مجبور ہوجائیں ‘ خیبر پختونخوا میں انضمام ‘ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ‘ بلدیاتی انتخابات ‘ مالیاتی پیکج ‘ این ایف سی ایوارڈ میں حصہ اور تیس ہزارلیویز اہلکاروں کی بھرتی ہمارے بڑے بڑے مطالبات ہیں ۔
جے یو آئی (س ) کے صوبائی امیر مولانا یوسف شاہ کا کہنا ہے کہ قبائلی عوام کے مسائل اسلام آباد کے بجائے پشاور ہائی کورٹ میں بآسانی حل ہوسکتے ہیں کیونکہ اگر فاٹا کے محل وقوع پر نظر ڈالی جائے تو فاٹا کے عوام کی رسائی اسلام آباد کے بجائے پشاور تک بڑی آسانی سے ہوتی ہے ‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا اور یقیناًہمارا عدالتی نظام بھی کمزور ہے مگر پھر بھی عدالتوں کے بہت سے فوائد ہیں کیونکہ اس میں کم از کم اپنی آواز اٹھانے کا حق تو ملتا ہے ‘ ایف سی آر کے نظام میں تو یہ حق میں میسر نہیں ‘ اور اگر پورے صوبے کے لئے پشاور ہائی کورٹ قابل قبول ہے تو چاہئے یہ کہ اسے فاٹا کے لئے بھی قابل قبول قرار دیا جائے ۔


ایک طرف اگر فاٹا کے سیاسی عمائدین کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد کے بجائے پشاور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں فاٹا تک توسیع کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب جے یو آئی (ف)فاٹا کے جنرل سیکرٹری مفتی اعجاز شنواری کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کی فاٹا تک توسیع انضمام کی جانب پہلا قدم ہوگا اس لئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کی فاٹا تک توسیع کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات کے حوالے سے ہم صرف انضمام کی مخالفت کرتے ہیں باقی تمام اصلاحات کی ہم حمایت کرتے ہیں ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کو فاٹا تک توسیع دینے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں اس سلسلے میں چاہئے کہ آسانی یا مشکلات کا قبائلی عوام سے پوچھا جائے ۔


قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے سابق ایم این اے منیر خان اورکزئی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی فاٹا تک توسیع ممکن نہیں اس کیلئے پہلے سرکٹ بینچ قائم کرنا ضروری ہوگا ‘ جس کے لئے لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا ‘ دفتر قائم کیاجائیگا ‘ حکومت کی یہ تجویز تھی ‘مگر عوام اور فاٹا کے پارلیمنٹرینز نے اس کو رد کردیا ہے اور مجھے ا مید ہے کہ پشاور ہائیکورٹ ہی کو فاٹا تک توسیع دی جائے گی ۔


دوسری جانب قبائلی علاقوں کو پشاور کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کے تحت لانے کی تجویز کے حوالے سے مختلف قبائلی علاقوں کے عوام نے ٹی این این کے ساتھ اپنی رائے کا اس طور اظہار کیا ۔
میرا نام محمد عمران خان اور تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے ‘ فی الحال حکومت نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا فاٹا کو صوبے میں ضم کیا جائے گا ‘ الگ کونسل یا صوبے کا درجہ دیاجائیگا یا یہ ایسا ہی رہے گا ‘ موجودہ وقت میں حکومت کا مقصد قبائلی علاقوں کو عدالتی حقوق دینا تھا ‘ اس میں ابھی مزید باتیں باقی ہیں اور جب آخری فیصلہ ہوجائے گا تو پتہ چل جائے گا ‘ الگ صوبہ بننے کی صورت میں اس کی الگ ہائی کورٹ ہوگی اور اگر پختونخوا میں ضم کرنا ہو تو پھر بات پشاور ہائی کورٹ تک آئے گی ‘ اور اگر فاٹا کے موجودہ سٹیٹس میں کوئی تھوڑی بہت تبدیلی کرناہو تو پھر ظاہر ہے اسلام آباد ہائی کورٹ ہی ہوگی ۔
میں کرم ایجنسی کا کامران ہوں ‘ فاٹا کے خیبر پختونخوامیں انضمام کی با ت ہو رہی ہے اور حکومت نے پشاور کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کو رسائی دینے کی بات کی ہے جس کی ہم مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس سے مختلف مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور حکومت اپنے وعدوں سے مکر رہی ہے ۔
میرا نام ناہید آفریدی اور تعلق خیبر ایجنسی سے ہے ‘ ہم ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے کیونکہ ہمارے لئے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں ‘ میں اس بات پر بہت حیران ہوں کہ ہم متواتر یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمیں صوبے میں شامل کیا جائے پھر ہمیں کیوں اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحت دیا جارہا ہے ؟
میں اپر اورکزئی کا سید ابن علی ہوں ‘ ہم قبائل پوری طرح پشاور سے بھی واقف نہیں تو اسلام آباد کیسے جائیں گے ؟ غریب لوگ تو بالکل اسلام آباد سے رہ ہی جائیں گے ۔
میرانام افتخار آفریدی اور تعلق باڑہ خیبر ایجنسی سے ہے ‘ اسلام آباد کے وکلاء قبائل کے رسم ورواج سے باخبر نہیں وہ ہماری زبان نہیں سمجھتے ‘ لوگوں کو اسلام آباد میں بہت مشکلات ہونگی ۔
میں اورکزئی ایجنسی کی کائنات کمال ہوں ‘ بہت سے قبائلی ان پڑھ ہیں ‘ انہیں اردو بھی نہیں آتی اور نہ ہی وہ اسلام آباد کے ماحول سے باخبر ہیں ‘ اس لئے چاہئے یہ کہ اصلاحات میں ان چیزوں کو مدنظر رکھاجائے نہ صرف یہ کہ قبائل کو صرف اسلام آباد ہائی کورٹ تک رسائی دی جائے ۔
لال بادشاہ نام اور تعلق مہمند ایجنسی سے ہے ‘ یہ انتہائی غلط فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ہمارے قریب ہی پشاور ہائی کورٹ ہے ‘ اس میں کیا مسئلہ ہے ؟ مجھے اس کی سمجھ نہیں آتی۔


میرا نام لیلیٰ شاہنواز اور تعلق فاٹا سے ہے ‘ میں جب اس سارے معاملے کو دیکھتی ہوں تو سمجھ نہیں آتی کہ وفاقی حکومت آخر چاہتی کیا ہے ‘ دوسرے یہ کہ فاٹا کے عوام کے مستقبل کے فیصلے باہر سے نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ یہ قبائلی عوام کا حق ہے کہ ان سے پوچھا جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے ۔
میرا نام رحمت اور شمالی وزیر ستان سے تعلق ہے ہم لوگوں کا دارومدار اور آمد ورفت زیادہ تر پشاور کے راستے ہے اور فاٹا کے اکثر وکلاء بھی پشاور میں پریکٹس کرتے ہیں اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہم لوگوں کے لئے پشاور ہائیکورٹ بہتر ہے ۔
دوسری طرف اس تجویز اور موضوع کے حوالے سے ٹی این این نے فرہاد آفریدی ایڈووکیٹ ‘ پشاور یونیورسٹی شعبہ سیاسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر اور کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نورین نصیر اور شمالی وزیر ستان قومی جرگہ کے سابق صدر خالد احمد داوڑ کے ساتھ تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی نذر ہے ۔
ٹی این این :فرہادآفریدی صاحب !فاٹا کے لئے پشاور کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جو تجویز پیش کی گئی ہے اس پر ذراتفصیلاً روشنی ڈالیں ؟
فرہاد آفریدی :نیا بل جو متعارف کرایا گیا ہے اس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ہم قبائلی علاقوں تک ہائی کورٹ کو توسیع دیں گے لیکن وہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہوگی ‘ اسلام آبادہائیکورٹ کو فاٹا تک توسیع دینے کا مطلب یہ ہے کہ میں وزیرستان ‘ باجوڑ اور اسی طرح دیگر ایجنسیوں سے چل کر اسلا م آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونگا ‘ مجھے تو اس میں کوئی منطق دکھائی نہیں دیتی ‘ ہاں البتہ آئینی طور پر وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو لاہور ‘ سندھ اور اسی طرح دیگر صوبوں کی عدالت کا اختیاروہاں تک بڑھا سکتی ہے اور ہمارے قبائلی قانون سمجھنے والے ساتھی ‘ سول سوسائٹی ‘ سیاسی اور قومی عمائدین کی جانب سے اس تجویز پریہ تنقید کی جاتی ہے کہ اگر ہمیں عدالتی نظام دینا ہے تو اس کے لئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی شرط نہ رکھی جائے ‘ پشاور ہائی کورٹ کی ذیلی عدالتوں کی ایک ترتیب صوبے کے مختلف شہروں میں ہے ‘ وزیر ستان کی دہلیز پر بنوں بینچ ہے ‘ خیبر کے لئے پشاور ‘ اورکزئی اور کرم ایجنسیوں کیلئے ہنگو میں ایک بینچ قائم کیا جاسکتا ہے ‘ باجوڑ اور مہمندکے لوگ مینگورہ بینچ جا سکتے ہیں ‘ فوری طورپر پشاور ہائیکورٹ کے یہ بینچز بہت آسانی سے کام آسکتے ہیں ‘ اور اگراسلام آباد ہائی کورٹ کو توسیع دی جاتی ہے تو پہلے اس کیلئے فنڈز مختص کرنا ہونگے ‘ اس میں بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ‘ کوئی کچھ کہے گا اور کوئی کچھ ‘ پھر ہر ایجنسی میں ذیلی عدالتیں قائم ہونگی یعنی اس کے لئے سٹاف اور بھرتی وغیرہ ‘ تو بس اس سے الف لیلیٰ کی داستان بن جائے گی لیکن میرے خیال میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی بات کی کوئی بنیاد نہیں ‘ کہ جیسے خواہ مخواہ حکومت ایسا ہی کرے گی ‘ وفاقی حکومت تو ستر سال میں پورے فاٹا میں ایک یونیورسٹی تک تو بنا نہیں سکی اور اگر پھربھی بات یہاں تک پہنچی تو آپ خود دیکھیں گے قبائل احتجاج کیلئے سڑکوں پرنکلیں گے ۔


ٹی این این :خالد احمد داوڑ صاحب!آپ کا کیا خیال ہے کہ قبائل اپنے مقدمات اور دعوے اسلام آباد لے جاسکیں گے ‘ یہ وہ کیسے کریں گے ؟
خالد احمد داوڑ :میں تو یہ کہتا ہوں کہ ایک شخص وزیر ستان سے چل کر اسلام آباد آئے گا پہلے تو یہ آنا جانا بہت مشکل ہے پھر وہاں رہائش ‘ وکیل سے ملنا اور اسے اپنا سمجھانا یہ وہ معاملات ہیں جن میں مشکلات درپیش آئیں گی کیونکہ صرف اسلام آباد جانا تو مقصد نہیں ‘ یہ بہت دور پڑتا ہے او ر بہت مشکل ہے ‘ فاٹا کے عوام کو ویسے ہی ٹرخایا جا رہا ہے کبھی ایک بہانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی دوسرا تاکہ ان کی توجہ بٹی رہی ۔
ٹی این این :ڈاکٹر نورین نصیر صاحبہ !اصلاحات کے لئے کوششیں جاری ہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو فاٹا تک توسیع دی جائے ‘ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے ؟
ڈاکٹر نورین نصیر :ہماری قبائلی بہنوں کو تو شناختی کارڈ بھی اس وقت بنا کر دئیے جاتے ہیں جب وہ حج کے لئے جاتی ہیں تو وہ اپنی فریاد لے کر اسلام آباد کیسے جائیں گی ‘ پھر ہم کہتے ہیں کہ جب ایف سی آر کا خاتمہ ہو جائے گا اور عدالتی نظام کو وہاں تک توسیع مل جائے گی تو اس میں ہمار ی قبائلی بہنوں کے تحفظ کے لئے کیا قانون سازی ہوگی ؟ یہ ہمارے حکومت سے سوالات ہیں کیونکہ بات صرف ہائی کورٹ تک رسائی کی تو نہیں ۔
ٹی این این :فرہاد آفریدی صاحب !کیا عدالتی نظام کی توسیع کے ساتھ خواتین کے لئے کوئی خاص ٹریبونل قائم کیا جائے گا ؟
فرہاد آفریدی :عدالتی نظام کی فاٹا تک توسیع سے ہمارے اسی فیصد مسائل حل ہو جائیں گے ‘کیونکہ ہمیں اپنے بنیادی حقوق سے متعلق پوچھنے کا حق ہمیں مل جائے گا ‘ پھر بنیادی حقوق میں کوئی یہ تمیز نہیں کرے گا کہ یہ مردوں کو مل سکتے ہیں اور خواتین کو نہیں مل سکتے ‘ پھر ایک خاتون بھی اپنے مسائل حقوق سے متعلق برملا پوچھ سکے گی او ر عدالت سے بھی رجوع کرسکے گی ۔
ٹی این این :خالد احمد داوڑ صاحب !فرض کریں کہ فاٹا سے ایف سی آر کے خاتمے کی پہلی صبح جب عدالتوں کو بھی یہاں تک توسیع مل جائے گی تو ایک قبائلی رہنما کا کیا حال ہوگا ؟
خالد احمد داوڑ :اس صبح جب وہ گھر سے نکلے گا تو اس کے کندھے علاقائی ذمہ داری سے ہلکے ہو چکے ہونگے اسے یہ غم نہیں ہوگا کہ وہ مزدوری کے لئے جارہا ہو اور اسے کسی اور کے کئے میں گرفتار کر لیا جائے ۔
ٹی این این :ڈاکٹر نورین نصیر صاحبہ !کرم ایجنسی یا تیراہ میں بیٹھی خواتین کے کیا جذبات اور احساسات ہونگے اس پہلی صبح جب فاٹا سے ایف سی آر کا خاتمہ ہوگا اور عدالتوں کو وہاں تک رسائی مل جائے گی ؟ کیا آپ اس کی منظر کشی کرسکیں گی ؟
ڈاکٹر نورین نصیر :ایک قبائلی خاتون بھی سب کچھ سمجھتی ہے ‘ جب اجتماعی ذمہ داری کے تحت گھر کا مرد یا اس کا شوہر زیر حراست ہوتا ہے تو اس وقت گھر کو کون دیکھتا ہے ؟ اور رواج کے تحت جب کسی خاتون کو مارا جاتا ہے تو کیا گاؤں کی دیگر خواتین یہ نہیں کہتیں کہ اس پر یہ الزام اس لئے لگایا گیا ہے کہ ا س کا مقصد فلاں شخص کو مارنا ہے اور جب کبھی ایسا قانونی ڈھانچہ وہاں آجائے تو اس کے ساتھ ترقی بھی خود آجائے گی ‘ خواتین کی تعلیم عام ہوجائے گی ‘ جب لوگ مجھے دیکھیں گے تو پھر کیوں اپنی بچیوں کو سکول نہیں بھیجیں گے ۔
ٹی این این :فرہاد آفریدی صاحب !اگر ہم مثال تو طور پر ایک کیس لیں تو اس پر پشاور اور اسملام آباد ہائی کورٹس میں آنے والے خرچ کا فرق کیا ہوگا ؟
فر ہاد آفریدی :مثال کے طور پر اگر آپ پشاور سے وکیل کرتے ہیں اور اسے اسلام آباد لے کر جاتے ہیں تو ایک تو اس کی فیس ہو گی پھر ٹرانسپورٹ وہاں رہائش اور خوراک کا بل دینا ہوگا یہ اخراجات الگ سے ہونگے ‘ اور اگر یہ کیس پشاور میں ہو تو ایک تو وقت کی بچت ہوگی دوسرے لوگوں کو مسائل کم درپیش ہونگے اور پیسے کی بھی بچت ہوگی ۔
ٹی این این : خالد احمد داوڑ صاحب !اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کی بات بھی قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے مجوزہ دس سالہ عبوری مدت کیلئے ہوئی تو پھر کیا ہوگا ؟
خالد احمد داوڑ :میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ اس میں بھی مخلص نہیں ‘ یہ درست ہے کہ یہ ا یک امید تو ہو سکتی ہے لیکن مجھے یہ ا یک ویسے ہی وقت کے ضیاع کی بات معلوم ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر نورین نصیر :میں اس حوالے سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں ’ دس سالہ ترقی ا ور وفاق کی جو بات ہے تو میں یہ کہتی ہوں کہ ہمیں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے جب ہمارے ایم پی اے کو قانون سازی اور فنڈز کا ا ختیار دے دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں بلدیاتی نظام آجائے گا جو میرے بنیادی مسائل حل کرے اور لوگوں کو یہ اختیار بھی ہو کہ وہ اپنے فیصلے رواج کے تحت کرانا چاہتے ہیں یا عدالت کے ذریعے ‘ پھر آپ دیکھیں کہ اس سے کام ہو سکتا ہے یا نہیں ‘ترقی تب ہی ہوگی جب ایک شفاف احتساب پر مشتمل نظام آجائے گا صرف اس سے ترقی نہیں ہوگی کہ ایک مخصوص ادارے کو فنڈز دے دیا جائے اور پھر وہ دس سال میں فاٹا کوترقی کے راہ میں گامزن کردے‘ قبائل کو باہر کی پیسے کی بالکل ضرورت نہیں ‘ فاٹا کے راستے تین بلین ڈالر سے زائد کی عالمی تجارت ہوتی ہے اگر ہم یہ بھی اپنے علاقوں پر لگا دیں تو بات بن جائے گی ‘ مگر میرا خیال ہے کہ ریاست مخلص نہیں اور ہمیں بھی اپنی کوششیں ترک نہیں کرناچاہئے ہمار ی کوششیں جتنی بڑھیں گی تو آخر میں ریاست بھی مجبور ہو جائے گی اور وہ بھی ہمار ی آواز ضرور سنے گی ۔


یہ مضمون ریڈیوٹی این این کے پروگرام ’’ بدلون ‘‘ سے لیا گیا ہے جس میں قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں اور اصلاحات کے حوالے سے بات کی جاتی ہے ‘ یہ پروگرام ریڈیو ٹی این این کے پر وڈیوسرز شان محمد اور سلمان احمد نے تیار کیا ہے جو فاٹا کو خیبر پختونخوا کے پانچ ریڈیو سٹیشنز سے نشرہوتا ہے ۔
رپورٹرز :شاہ خالد ‘ گل محمد مہمند ‘ نبی جان اورکزئی ‘ نور شاہ ‘ ملک عظمت‘ علی افضل‘ حکمت شاہ اور رضوان محسود ۔

کمنٹس

متعلقہ مضامین

Scroll Back To Top

ٹی این این ‏موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

فیچرز اور انٹرویو- تازہ ترین

  • صلاحیتوں کے باوجود فاقوں پر مجبور خاندان حکومتی توجہ کا منتظر vlcsnap-2017-10-29-11h56m36s65

    رضوان محسود خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں لکڑیوں، دیواروں اور دیگر ٹھوس اشیاء پر خوبصورت اور دلفریب نقش و نگاری کےلئے شہرت رکھنے والے خاندان کا کہنا ہے کہ اس ہنر کی وجہ سے نہ تو انہوں نے کوئی فائدہ حاصل کیا ہے اور نہ کسی اور نے فائدہ دینے کی کوشش کی […]

  • خیبر ایجنسی سے ملنے والے بعض نوادرات پتھر کے دور کے ہیں 20170828_135445

    شاہ نواز آفریدی خیبر ایجنسی میں ہزاروں سال پرانے قدیمی آثار نے اس علاقے کی تاریخی حیثیت کو بڑھا دیا ہے مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان آثار کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے، خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد خان کا کہنا ہے کہ جمرود […]

سب سے زیادہ مقبول

    اورکزئی ایجنسی کے سرحدی علاقہ میں امریکی ڈرون حملہ، 2 عسکریت پسند کمانڈر جاں بحق

اورکزئی ایجنسی کے سرحدی علاقہ میں امریکی ڈرون حملہ، 2 عسکریت پسند کمانڈر جاں بحق

مزید پڑهیں
    ‘فنڈز کے بروقت اجراء میں تاخیر کا ذمہ دار وزارت خزانہ نہیں فاٹا سیکرٹریٹ ہے’

‘فنڈز کے بروقت اجراء میں تاخیر کا ذمہ دار وزارت خزانہ نہیں فاٹا سیکرٹریٹ ہے’

مزید پڑهیں
    نقیب اللہ کے قتل کا مقدمہ راؤ انوار کیخلاف درج

نقیب اللہ کے قتل کا مقدمہ راؤ انوار کیخلاف درج

مزید پڑهیں
    لکی مروت: 5 سالہ بچے کے قتل میں ملوث ملزم اپنے انجام کو پہنچ گیا

لکی مروت: 5 سالہ بچے کے قتل میں ملوث ملزم اپنے انجام کو پہنچ گیا

مزید پڑهیں
    سرکاری اسکیم کے تحت حج درخواستوں کی وصولی کا آج آخری دن

سرکاری اسکیم کے تحت حج درخواستوں کی وصولی کا آج آخری دن

مزید پڑهیں

بدلون

  • فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لئے تحریک کے حوالے سے قبائلی عوام کا موقف 

    فاٹا کو الگ سے صوبہ بنانے کیلئے تحریک کے رواں ا صلاحاتی عمل پر ا ثرات اور نفع نقصان کے بارے میں ٹی این این نے فاٹا کے مختلف علاقوں کے عوام کی رائے معلوم کی ہے جنہوں نے اپنی آراء کا کچھ یوں اظہار کیا ہے ۔ میرا نام شیر عالم اور جنوبی وزیرستان […]

  • فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کیلئے تحریک جاری رکھیں گے ‘ فاٹا گرینڈ جرگہ

    نشتر ہال میں جرگہ کے اہتمام کرنے والے ملک عطاء اللہ جان محسود او ر جے یو آئی ف فاٹا کے امیر مفتی عبدالشکور فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کو ممکن اور اس کے لئے صدر مقام کے ا نتخاب کو بھی ایک آسان مرحلہ سمجھتے ہیں ‘ اس تحریک کے حوالے سے ٹی این […]

فیس بک پر

منزل په لور

  • فاٹا کے نوجوانوں کی ملازمت کے مطالبات و تجاویز Unemployment

    وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں آپریشن کے باعث بے گھر ہونے والے خاندانوں کی واپسی قریباً مکمل ہوگئی ہے تاہم اپنے علاقوں کو واپس آنے والے نوجوانوں کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ یہ نوجوان نہ صرف سرکاری محکموں میں ملازمتوں کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ فاٹا میں […]

  • فاٹا کے والدین بچوں کی ملازمت کےلئے پریشان Habib-Ali-Kurram-Agency-680x365

    فاٹا میں امن کے قیام کے بعد واپس جانے والے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری کا سامنا ہے، ان بے روزگار نوجوانوں میں بیشتر کو والدین نے غربت کے باوجود اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے تاہم یہ والدین اپنے بچوں کی بےروزگاری کے باعث انتہائی پریشان ہیں۔ کرم […]

ٹویٹر پر

ارکائیو

January 2018
M T W T F S S
« Dec    
1 2 3 4 5 6 7
8 9 10 11 12 13 14
15 16 17 18 19 20 21
22 23 24 25 26 27 28
29 30 31