فاٹا کی بدامنی سے متاثرہ کاروباری طبقے ‘ صنعت کاروں اور روزگار کی بحالی کے لئے سمیڈا کا امدادی پروگرام

قبائلی علاقوں کے عوام گزشتہ کئی برس سے خراب حالات اور بے گھری کی وجہ سے بہت سے نقصانات سے دو چار ہوئے ہیں ‘ بدامنی اور بے گھری کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں کے لگے لگائے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں ‘ اب اپنے علاقوں کو واپس جانے والے ٹی ڈی پیز حکومت نے دیگر کئی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں کاروبار اور روزگار کے کے ذرائع کی بحالی کے لئے بھی سر گرمیاں شروع کررکھی ہیں ۔
قبائلی علاقوں میں ٹی ڈی پیز کی واپسی کے بعد ان کی زندگی کو واپس اپنی ڈگر پر لانے اور ان کی بحالی کے لئے حکومت کی جانب سے مختلف سر گرمیاں جاری ہیں ‘ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لئے امدادفراہم کرنے والے ادارے سمیڈا نے خیبر پختونخواکے ساتھ ساتھ بدامنی اور آفات سے متاثرہ فاٹامیں کاروبار کی بحالی کیلئے بھی مالی امداد کے پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کردیا ہے ‘ سمیڈا کے مطابق ای آر یعنی اکنامک ری وائٹا لائزیشن آف خیبر پختونخوا اینڈ فاٹا کے نام سے اس منصوبے کے تحت کاروباری طبقے میں ایک ارب سولہ کروڑ روپے تقسیم کئے جائیں گے ‘ مگر فاٹا کے کاروباری افراد کے تاثرات سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ لوگ حکومت اور امدادی اداروں کی امداد سے مطمن نہیں ‘میرانشاہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے طارق داوڑ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت دعوے اور وعدے تو بہت کرتی ہے مگر اس کو پورا نہیں کیا جاتا ‘ان کا کہنا تھا کہ دعوے زیادہ اور کام کم کیا جاتا ہے ‘ میرانشاہ میں کاروبار بنوں ‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سے بہت اچھا تھا مگر جب لوگوں کی واپسی ہوئی تو جیسا کہ عوام نے سمیڈا اور دیگر حکومتی اداروں سے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں و ہ پوری نہیں ہو سکیں ‘ جس کا بیس لاکھ کا نقصان ہوا ہے اسے ایک لاکھ روپے بھی نہیں مل سکے ۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے سرا روغہ کے رہائشی شفیق نے حکومت کی جانب سے علاقے میں مارکیٹوں کی دوبارہ آبادکاری کے اقدام کی تعریف کی ہے مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف مارکیٹیں بنانے سے کام نہیں ہوگا بلکہ حکومت ان کے روزگار کے لئے کارخانے بنائے اور مقامی پیداوار کو فروغ دے ‘ ان کا کہنا تھا کہ مکین اور سوڈر خوا میں زور و شور سے کام جاری ہے ان کو سراہا جانا چاہئے مگر صرف اتنا نہیں ہونا چاہئے کہ لوگوں کے لئے دکانیں بنادی جائی بلکہ حکومت کو چاہئے کہ مقامی سطح پر روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کیلئے کام کرے ‘ کارخانے لگائے جائیں اور مقامی پیداوار جیسا کہ میوہ جات اور دیگر چیزیں ہیں ان کو فروغ دیاجائے ۔
اورکزئی ایجنسی کے ملا خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے شاہد اورکزئی کا کہنا ہے کہ ایجنسی میں ڈبوری ‘ غلجو ‘ میشتی اور خدیزئی جیسی بڑی مارکیٹوں میں عوام کے بڑے بڑے کاروبار مکمل ختم ہو چکے ہیں مگر کاروبار کیلئے امداد تو ایک طرف حکومت نے اس حوالے کسی سے کچھ پوچھا تک نہیں ‘ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اورکزئی کے محروم عوام کے ساتھ خصوصی طور پر امداد کی جائے ‘ اگر ایک طرف سمیڈاقبائلی علاقوں میں گزشتہ مرحلے میں عوام کو امداد دینے کے دعوے کرتی ہے تو دوسری جانب شاہد اورکزئی کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کے کاروباری لوگ سمیڈ ا کے نام سے بھی واقف نہیں ‘ان کا کہنا تھا کہ ان کا اپنا ڈبوری مین بازار میں پچاس ساٹھ لاکھ روپے کا کاروبار تھا جو مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے مگر آج تک نہ کسی ا مدادی ادارے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی امداد ملی ہے ہمارے علاقے کے غریب عوام سمیڈا کے نام سے بھی واقف نہیں ۔
دیگر ایجنسیوں کے کاروباری طبقے کے گلے شکوے اپنی جگہ مگر باجوڑ کے پھاٹک بازار کے عبدالجبار کا کہنا ہے کہ سمیڈا ہی کی مالی مدد سے انہوں نے اپنے کمپیوٹر سنٹر کوبحال کیا ہے جس سے نہ صرف ان کے لئے روزگار کا دروازہ کھلا ہے بلکہ دیگر نوجوانوں کے لئے بھی روزگار کا ایک سبب بناہے ‘ان کا کہنا تھاکہ ہمیں ایک گرانٹ ملی جو تین لاکھ روپے تھی وہ بہت کم تھی ‘ ادارے نے کہا کہ آپ کے سنٹر کی رجسٹریشن نہیں اس لئے آپ کو رقم کم ملی ہے جس کے بعد میں نے بورڈ سے رجسٹریشن کرائی اس کے بعد مجھے چھ لاکھ روپے کی اپگریڈیشن ملی ‘گرانٹ لینے کے بعد میں نے چار سو نوجوانوں کو تربیت دی جن میں سے تقریباً پچیس تک تربیت لینے والے اپنا روزگار کر رہے ہیں ‘ اگر یہ پروگرا م نہ ہوتا تو میں اپنا انسٹی ٹیوٹ بحال نہ کر پاتا ۔
سمیڈا کے حکام کاکہنا ہے کہ دوسر ے میں ان کاروباری افراد کو ترجیح دی جائے گی جو پہلے مرحلے میں امداد سے محروم رہ گئے تھے ‘ سمیڈا سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ پروگرام ایک ماہ بعد شروع ہوگا اوراس گرانٹ کیلئے درخواستیں آن لائن ‘ سمیڈا اور سرحد چیمبر آف کامرس کے دفاتر سے حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔
فاٹا کے متاثرہ تاجروں کا اپنے تباہ ہونے والے کاروبار اور اس حوالے سے سمیڈا اوردیگر حکومتی اداروں کے حوالے سے کیا موقف رکھتے ہیں ؟اس حوالے سے اورکزئی ایجنسی کے وزیر گل ممبر کا کہنا ہے کہ ہماری دکانیں اور کاروبار تباہ ہوچکے ہیں مگر اپر اورکزئی میں ابھی تک کسی کے ساتھ امداد نہیں کی گئی ‘ انہوں نے سمیڈا کے حکام سے اپیل کی کہ اپر اورکزئی ایجنسی میں اپنی امدادی سرگرمیاں شروع کرے ۔
باجوڑ ایجنسی کے علاقے کوثرکے رہائشی فضل مالک کا کہنا ہے کہ ہمارا پولٹری کا کاروبار بالکل ٹھپ ہو چکا ہے ‘ سمیڈا نے روزگار کیلئے کچھ امداد کی تھی مگر میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن سے سمیڈا کے دفتر کے ملازمین نے آدھے روپے لے لئے ہیں ‘سمیڈاکے پاس اب بھی میرے دو فارم پڑے ہیں ‘ جس طریق کار سے ہم گزرے ہیں وہ دو ماہ کا تھا ‘ ہم نے مختلف جگہوں سے تصدیق بھی کرائی ہے ‘ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے ۔
کرم ایجنسی کے عید گل کا سمیڈا کے اس امدادی پروگرام کے بارے میں کہنا ہے کہ میری مشین تھی اور شیٹرنگ اور دروازوں کا اپنا کاروبار تھا ‘ جب ہم بے گھر ہونے کے بعد واپس آئے تو وہ تمام سامان خراب ہو چکا تھا ‘ کچھ گاڑیوں سے گر کر ٹوٹ گیا اس لئے اگر سمیڈا ہمار ی مدد کرے تو ہم اپنا کاروبار دوبارہ شروع کر سکتے ہیں ۔
دوسری جانب مہمندایجنسی کے علاقے کولا خیل کے ملک نادر منان مہمند کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں بیزئی کے علاقے میں نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی اس کے مواقع موجود ہیں ‘ سمیڈا کا نام ہم نے سن رکھا ہے ‘ میں لوگو ں کے ساتھ رابطے میں ہوں چاہے وہ بیزئی کے ہوں یا خویزئی میں ہوں ‘ لیکن میں یہ شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے خویزئی اور بیزئی میں کوئی کام کیا ہے تو اسے یہ ثابت نہیں کرسکتے ‘ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہماری مدد کریں ۔
باڑہ خیبر ایجنسی کے ارشد کا کہنا ہے کہ انہوں نے باڑہ میں ایک ہسپتال قائم کیاتھا جو بدامنی کے دوران تباہ ہو چکا ہے ان کا کہنا ہے کہ میرا پچیس لاکھ روپے نقصان ہوچکا ہے میں نے سمیڈا کو درخواست دی اور بہت بھاگ دوڑ کی اور جو طریق کار تھا اسے قانونی طور پر پورا کردیا ‘ پھر وقتاً فوقتاً جاکر اس کی معلومات لیتا رہا ‘ آخر میں سمیڈا والوں نے کہا کہ ہمارا ٹارگٹ پورا ہوچکاہے ‘ اس کے بعد جب اور فنڈز ملیں گے تو تمہاری درخواست پر غور کیا جائے گا ۔
شمالی وزیر ستان کے محمد نور کا علاقے میں روزگار کے حوالے سے کہنا ہے کہ آپریشن سے قبل یہاں بہت اچھا کاروبار اور مارکیٹیں تھیں مگر اب سب کچھ مسمار ہوچکاہے حکومت کہتی ہے کہ بنا کردیں گے لیکن بناتی نہیں ‘سمیڈا نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ۔
جنوبی وزیر ستان کی تحصیل مکین سے تعلق رکھنے والے نور رحمن کا سمیڈا کی امداد کے حوالے سے کہنا ہے انہوں نے یہ نام پہلی بار سنا ہے ‘ وزیر ستان میں تو یہ ادارہ نہیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ امداد کی گئی ہے کہ وہ اس سے اپنا کاروبار کرے۔
دیگر ایجنسیوں کی طرح خیبر ایجنسی کا باڑہ بازار نہ صرف فاٹا اور خیبر پختونخوا بلکہ ملکی سطح پر بھی شہرت رکھتا ہے مگر مقامی افراد کی بے گھر ی اور آپریشنز کے نتیجے میں 2009ء میں یہ بازار بھی مکمل طور پر بند ہو چکا ہے ‘جس کی بندش کے باعث پانچ ہزار کے قریب کاروباری لوگ متاثر ہو ئے ہیں جنہوں نے سمیڈا کی امداد کیلئے کوششیں کی ہیں ۔
باڑہ بازار اور روزگار کے حوالے سے بازار کے سابق چیئر مین سید ایاز کا کہنا ہے کہ باڑہ بازار اس وقت بند ہوا جب رمضان قریب تھا تو مثال کے طور پر اگر کوئی پچاس روپے کی استطاعت رکھتا تھا تو اس نے بیس روپے کا سامان فروخت کیلئے خریدا ‘ تو ہمار ے تاجروں کا جس قدر سامان تھا وہ یہی رہ گیا ‘ میرا اپنا ہو ل سیل کا کاروبار تھا اور اس وقت جب میں کام کر رہا تھا تو اس کی مالیت ستریا اسی لاکھ روپے تھی ‘ ایک تو میرا اپنا یہ سرمایہ بھی گیا اور جن کے ذمے میرے پیسے تھے وہ بھی ہاتھ سے گئے ‘جن کے ساتھ میرا روزگار تھا وہ لوگ بھی ختم ہوگئے ‘ یہاں باڑہ بازار میں نو ہزار چھ سو دکانیں تھیں ‘ جب ہم نے حساب لگایا تو روزانہ کی بنیاد پر ہمار ا تین چار کروڑ روپے نقصان ہو رہا تھا ‘ اب ہم در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ‘ اور اب ہم استطاعت نہیں رکھتے کہ جو چیز پانچ روپے کی اب وہ پچیس کی ہو گئی ہے ‘ اس لئے کاروباری طبقے کے لئے بہت مشکلات ہیں ‘2012ء میں سمیڈا کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگوں کے کاروباروں کی بحالی کیلئے ورلڈ بینک کی جانب سے روپے آئے ہیں اس کے نام پر ہم سے درخواستیں طلب کی گئیں ‘ ہم نے درخواستیں جمع کرادیں مگر اس کے لئے اس قدر طویل طریق کار رکھاگیا کہ ایک ایک درخواست پر ہمارا تین چار ہزار روپے کا خرچہ آیا ‘ ہم نے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار درخواستیں جمع کرائی تھیں لیکن ابھی تک امداد تو ایک طر ف کسی نے ہم سے رابطہ بھی نہیں کیا ‘ اب ہمیں کہا جارہا ہے کہ پہلا مرحلہ ختم ہوچکا ہے اور دوسرا شروع ہونے والا ہے لیکن ہمیں اس سے کوئی امید نہیں ‘ کیونکہ وہ صرف اپنا پراجیکٹ چلائیں گے اور جو روپے آئیں ہیں وہ ان کی تنخواہوں میں صرف ہو جائیں گے مگر کسی کو ایک پائی بھی نہیں ملے گی ‘ پہلے مرحلے میں باجوڑ میں دو تین لوگوں کو امداد دی گئی اور وزیر ستان میں چندلوگوں کی ا مداد کی گئی مگر باڑہ میں کسی کو بھی ایک ٹکہ نہیں دیا گیا ‘ میں نے جب کاروبار کے لئے امداد کا اشتہار دیکھا تومیں ان کے دفتر گیا جہاں میر ی ان کے ساتھ میٹنگ ہوئی ‘ ہم اب یہ کہتے ہیں کہ جو بھی امداد دینی ہے وہ پرانی درخواستوں پر دی جائے کیونکہ ہمارا اس پر دوبارہ تین چار ہزار کا خرچہ ہوگا اور وقت بھی ضائع ہوگا بہتر یہ ہوگا کہ ٹیمیں یہاں آئیں سروے کریں اور نام فائنل کریں جس کے بعد ہی ہم سے درخواستیں طلب کی جائیں ۔
اگر ایک طرف سید ایاز کی طرح کاروباری طبقے کی ا یک کثیر تعداد سمیڈا کی امدادی سرگرمیوں پر تنقید کرتی نظر آتی ہے اور اس حوالے سے گلے شکوے رکھتی ہے تو دوسری جانب ٹی این این کے ساتھ ایک ا نٹرویو میں جب عوام کے گلے شکوے اور مسائل سمیڈا کے بحالی پروگرام کے پراجیکٹ منیجر جاوید خٹک کے سامنے رکھے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت احسن طور پر اپنی ذمہ داریاں ا نجام دے رہے ہیں اور پہلے مرحلے میں مستحق کاروباری طبقے کو ان کا حق بر وقت دیا گیا ہے ‘اور اگلے مرحلے میں ان قبائلی علاقوں کے مستحق کاروباری طبقہ کو ترجیح دی جائے گی جو پہلے مرحلے میں امداد سے محروم رہ گئے تھے ‘ جاوید خٹک نے اس حوالے سے مزیدکہا کہ ایک آدھ ماہ میں سمیڈا کی جانب سے فاٹا کے کاروباری طبقہ کو گرانٹ دینے کا پروگرام بھی شروع کردیا جائے گا ‘میں آپ کی توسط سے قبائلی بھائیوں اوربہنوں درخواست کرتا ہوں کہ مہربانی کرکے دستاویزات تیار رکھیں ‘ جس میں ان کے نقصانات سے متعلق تمام معلومات ہوں ‘ جیسا کہ اس وقت ان کے پاس پڑے سامان کی تفصیل اور بلڈنگ بنانے پر آنیوالی لاگت ہے ‘ دوسرے یہ کہ ٹریڈ ایسوسی ایشن سے یا چیمبر سے خط لائیں اگر وہ خط نہیں دیتے تو وہ اے پی اے سے بھی خط لے سکتے ہیں جس میں وہ یہ تحریر کریں گے کہ واقعی حامل رقعہ ہذا کاروباری شخص ہے اور فلاں مدت سے کاروبار کر رہا ہے ‘یہ ایسا پروگرام ہے جس میں کوئی چیز گروی رکھنا پڑتی ہے نہ کسی گارنٹر کی ضرورت ہے ‘یہ ایک قسم کی گرانٹ یا امداد ہے تاکہ متاثرہ شخص اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے ‘ اور اس ضمن میں ہم کتنی امداد کرسکتے ہیں جیسا کہ خدا نخواستہ کسی کا کاروبار اگر تباہ ہوا ہے تو اس کے لئے 35لاکھ روپے کی گرانٹ ہے اور اگر کوئی کہتا ہے کہ میں نے اپنے کاروبار کو بہتر بنانا ہے یا وسعت دینی ہے اور اس کے لئے ایک مشین خریدنا چاہتا ہوں تو اس کیلئے بیس لاکھ روپے کی گرانٹ ہے جس میں سے آدھی رقم درخواست گزار اور آدھی پروگرام ادا کرے گا ‘مثا ل کے طور پر اگر کسی نے دس لاکھ روپے کی مشین خریدنی ہے تو پانچ لاکھ روپے وہ خود اور پانچ لاکھ روپے پروگرام کی جانب سے ادا کئے جائیں ۔گے
‘اس بار ہمارا فوکس ان علاقوں پر ہوگا جو گزشتہ مرحلے میں گرانٹ سے محروم رہ گئے تھے ‘ ان لوگوں کا گلہ بجا ہے کیونکہ گزشتہ مرحلے میں ہم ان علاقوں میں نہیں جاسکتے تھے اور وہاں جانے کی اجازت بھی نہیں تھی مگر اب یہ علاقے تمام کے تمام کھل گئے ہیں جیسا کہ خیبر ایجنسی کاعلاقہ باڑہ ہو یا اسی طرح دیگر جو ایجنسیاں جو رہ گئی تھیں انہیں اس بار انشاء اللہ ترجیح دی جائے گی ‘ اور یہ شکایت کہ یہ کہتے ہیں کہ منظور نظر افراد کو امداد دی جاتی ہے تو اس کے جواب میں میں یہ کہوں گا کہ اس نظام میں چوری نہیں ہوسکتی ‘ اس کی وجہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس میں ایک ٹیکنالوجی کا نظام ہے جس کے تحت اگر آج درخواست دی جاتی ہے تو اسے آج ہی نمبر الاٹ کیا جاتا ہے اور اسی شخص کو ایس ایم ایس بھیجا جاتا ہے ‘ اس لئے اگر میں ایک نمبر فائل کو چھوڑ کر دونمبر فائل اٹھاتا ہوں تو ورلڈ بینک کو بھی پتہ چل جاتا ہے اور صوبائی حکومت کو بھی علم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ تمام نظام جڑا ہوا ہے اس لئے اس میں دونمبری نہیں ہوسکتی ‘ بے شک ایک شخص نے 2013-14ء میں درخواست جمع کرائی ہو مگر جس قدر روپے تھے وہ مستحق تاجروں میں تقسیم کے بعدختم ہوگئے کیونکہ یہ ایک محدود فنڈ تھا تمام متاثرین تک اس کا پہنچنا ممکن نہیں ‘ ہم باقاعدہ ایک ترتیب میں آرہے ہیں جس کا نمبر پہلے ہوتا ہے اسے پہلے امداددی جائے گی ‘ اگر کسی کو گرانٹ ملے یا نہ ملے پھر بھی مجھے اس کی فائل تیار کرنا ہوگی ‘ مجھے فیلڈ میں اس کی اسسمنٹ کرنا ہوگی باقی گرانٹ دینا یا نہ دینا یا کم یا زیادہ دینا کمیٹی کا کام ہے اور اس کمیٹی میں مختلف اداروں کے 8افراد ہوتے ہیں اور یہ ان کا مشترکہ فیصلہ ہوتا ہے ۔
یہ مضمون ریڈیو ٹی این این کے پروگرام ’’ د منزل پہ لور ‘‘ سے لیا گیا ہے جس میں قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والوں کی زندگی اور دوبارہ واپس آنے والوں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے ‘ یہ پروگرام ریڈیو ٹی این این کے پروڈیوسرز شان محمد اور سلمان احمد نے تیار کیا ہے جو فاٹا اور خیبر پختونخوا کے پانچ ریڈیو سٹیشنز سے نشر ہوتا ہے ۔
رپورٹرز: شاہ خالد شاہ جی ‘ نبی جان اورکزئی ‘ شاہنواز آفریدی ‘ گل محمد مہمند ‘ ملک عظمت حسین ‘ علی افضل افضال ‘ رضوان محسود ‘ گوہر وزیر ۔