فاٹا اصلاحا ت: سیاسی اتحاد اور پختونخوا اولسی تحریک کے احتجاجی مظاہرے

گزشتہ دو سال سے قومی سطح پر فاٹا میں انتظامی تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں مگر فاٹا اصلاحات کے حوالے سے سیاسی اور عوامی سطح پر بہت سے اختلافات سامنے آئے ہیں دوسری جانب حکومت کی طرف سے بھی گزشتہ چند ماہ میں اس حوالے سے کوئی خاص سر گرمی دیکھنے کو نہیں ملی ‘ اصلاحاتی عمل کو تیز کرنے اور فاٹا سے ایف سی آر کے خاتمے کے لئے فاٹا سیاسی اتحاد اور پختونخوا اولسی تحریک نے مشترکہ طور پر احتجاجو ں اور دھرنوں کا راستہ اپنایا ہے ۔
اس حوالے سے چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف اور بعد میں جماعت اسلامی نے اگست کے مہینے میں پشاور میں احتجاج کیاہے ‘
فاٹا کے لئے اصلاحاتی عمل تیز کرنے اور ایف سی آر کے فوری خاتمے کے مطالبے کے لئے پشاور میں احتجاج کے موق پر فاٹا سیاسی اتحاد کے صدر اور باجوڑ ایجنسی کے رہائشی سردار خان کا کہناتھا کہ فاٹا اصلاحاتی عمل کو تیز کرانے کے لئے فاٹا سیاسی اتحاد اور پختونخوااولسی تحریک کے سائے تلے دھرنوں اور احتجاجوں کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس کے بعد مشترکہ ریلی اور اسلام آباد میں بڑے دھرنے کے لئے جایا جائے گا ‘ ان کا کہنا تھا کہ اس پر ہمارے سیاسی اتحاد کی تمام جماعتیں متفق ہیں کہ نمبر بائی نمبر ہر پارٹی دھرنا دے گی ‘ پہلے پی ٹی آئی نے دھرنادیا اور آج جماعت اسلامی کی باری ہے اس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی جلسہ کرے گی اور اس کے بعد دیگر جماعتیںاحتجاج ریکارڈ کرائیں گی ‘ان نمبر وار دھرنوں کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو کارکن تھک نہ جائیں اور دوسرے یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے ‘بعد میں ہم اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور حکومت کو اس پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرے۔
مذکورہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے الگ الگ سے دھرنے کے بجائے ایک بڑا مشترکہ احتجاج کرنے کے سوال پر اے این پی خیبر ایجنسی کے صدر شاہ حسین شنواری کا کہنا تھا کہ یہ ان کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس پر سب متفق ہوئے ہیں اور اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فاٹا سیاسی اتحاد میں شامل جماعتوں میں اصلاحات کے حوالے سے کسی قسم کے کوئی اختلا فات ہیں ‘ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی لو گ جب بیٹھتے ہیں تو مسئلے کے حل کے لئے راہ نکالتے ہیں اس لئے یہ ہماری منصوبہ بندی کا حصہ ہے ‘ اس کی وجہ اختلاف نہیں ‘ پی ٹی آئی کے زیر اہتمام چند روز قبل ہونے والے جلسہ میں میں اے این پی کے نمائندہ کے طور پر گیا تھا اور اس جلسہ میں باقاعدہ تقریربھی کی ‘ ہم سیاسی لوگ ہیں اور اصلاحات کی کامیابی کے لئے اپنی جدوجہد کریں گے اور اس سے کسی بھی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی فاٹا کے رہنما حضر ت ولی آفریدی نے اعلان کردہ دھرنوں کے تسلسل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کی کم دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں صحیح طور مشاورت میں شریک نہیں کیا جاتا جب یہ اپنا فیصلہ کر لیتے ہیں تو ہمیں آگاہ کردیا جاتا ہے کہ اس طرح کیا جائے گا ‘ ہمیں تحفظات ہیں مگر ان کی وجہ سے ہم اتحاد سے باہر نہیں ہوئے ‘ہم سیاسی اتحاد کے رہنماﺅں کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرکے ان کے سامنے اپنے تحفظات پیش کرینگے ‘اگر ہمار ے تحفظات دور کردیئے گئے تو دیگر جماعتوں کے دھرنے کی طرح پی پی پی بھی اپنا احتجاج ریکار ڈ کرائے گی ۔
پشاور میں احتجاج کے موقع پر جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقو ں میں انتظامی امور میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے جو ہر صورت میں کیا جائے گا ‘ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں اور یہ کہ اس عمل کے نتیجے میں قبائلی عوام کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہو جائیں گے ‘ان کا کہنا تھا کہ قبائل کے پاس ایف سی آر کے خاتمے اور خیبر پختونخوا میں شامل ہوئے بغیر کوئی راآپشن نہیں اس قدر گرمی میں جتنی تعدادمیں قبائلی عوام نکلے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائل اب تبدیلی چاہتے ہیں دوسر ی بات یہ کہ حکومت نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا ہے اور وفاقی کابینہ نے بھی منظوری دے دی ہے اس لئے حکومت کے پاس بھی اس پر عملد ر آمد کے سواکوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔
دوسری جانب پشاور میں اس احتجاج اور دھرنے کے موقع پر قبائلی عوام نے اپنے مطالبات سے ٹی این این کو یوں آگاہ کیا ۔
باجوڑ ایجنسی کے ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہم اپنے علاقے میں ایف سی آر کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تھے ان جلسوں اوردھرنوں کا یہ اثر ہوا ہے کہ آج ہم پشاور میں نکلے ہیں اور اس سے قبل ہم نے ایف سی آر کے خاتمے اور موجودہ دھرنے کو کامیا ب بنانے کے لئے باجوڑ ایجنسی میں 45جلسے کئے جس کا ردعمل یہ ہے کہ آج صرف باجوڑ سے ساڑھے تین ہزار افراد یہاں آئے ہیں ہم اسی فلائنگ کوچز لے کر آئے ہیں اسی طرح آٹھ بسیں بھی ہیں اور موٹر کاروں کا کوئی حساب نہیں معلوم ‘تو یہ سب ان جلسوں اور دھرنوں کا نتیجہ ہے کہ اب لوگ ایف سی آر کے خاتمے کےلئے آواز اٹھانے نکلتے ہیں ۔
جنوبی وزیر ستان کے طلباءکے ترجمان اسد اللہ کا کہنا تھا کہ آج کے ایف سی آر کے خلاف دھرنے میں جنوبی وزیر ستان کے نوجوانوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی اور یہ چاہتے ہیں کہ ایف سی آر کا خاتمہ ہو اور قبائلی علاقے خیبر پختونخوا میں ضم ہو جائیں ‘یہ ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے ‘پر امن طور پر ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے ہم اپنی آواز ‘ اپیل اور مطالبہ حکومت اور ساری دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
شمالی وزیر ستان کے ملک امشاد اللہ کا کہنا تھا کہ آج ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ یہ جو ایف سی آرنام کا کالا قانون قبائل پر مسلط کیا گیا ہے اس کا خاتمہ کیا جائے اور قبائلی علاقوں میں پاکستان کے آئین کا نفاذ کیا جائے ۔
کرم ایجنسی کے برہان الدین کا کہنا تھا کہ ہمار ا تو بس ایک مطالبہ ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو جو حقوق حاصل ہیں ہم بھی وہی چاہتے ہیں اور اس کے لئے آج ہم نے دھرنا دیا ہوا ہے ‘ اس پر سیاسی جماعتوں میں کوئی زیادہ اختلاف نہیں بس ایک دو پارٹیاں اختلافات کا باعث ہیں‘ انشا ءاللہ ہماری اپنی کوشش جاری رہے گی اگر فاٹا کے علاقوں پر مشتمل صوبہ دیا جاتا ہے یا خیبر پختونخوا میں ضم کیا جاتا ہے تو ہمیں دونوں صورتیں منظور ہیں مگر ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ کسی صورت میں ایف سی آر سے چھٹکارہ مل جائے ۔
دھرنے میں شریک باجوڑ ایجنسی کے ایک اور رہائشی وحید گل کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے پہلے درجے کے شہری بننا چاہتے ہیں او ر اب حکومت بھی مجبور ہوگئی ہے کہ اس نظام کو تبدیل کرے ‘ اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ‘قبائل کو حق اور انصاف دینا ہوگا ‘اختلافات کا مسئلہ اس قدر سنگین نہیں جس کی وجہ سے اصلاحات تعطل کا شکار ہوں ‘یہ حکومت کی ذمہ دار ی ہے کہ اس پر اتفاق رائے پیدا کرے اور فوری طور پر اصلاحات کا عملی نفاذ یقینی بنایا جائے ۔
اورکزئی ایجنسی کے محمد رحیم کا کہنا تھا کہ ہم تمام قبائلی نوجوان یہاں ایف سی آر کے خاتمے کے حق میں جمع ہو ئے ہیں ‘ہم ایف سی آر کا نہیں مانتے کیونکہ اس میں ہماری کوئی خیر نہیں ‘اور انشا ءاللہ اس کا حل نکلے گا ۔
تحصیل باڑہ خیبر ایجنسی کے غالب آفریدی کا کہنا تھا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ہم الگ سے کوئی نظام نہیں مانگ رہے ‘ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے دیگر علاقوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو جو حقوق حاصل ہیں جو قبائل کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بھی مل جائیں ‘اگر یہ صرف قبائل کی آواز ہوتی تو شاید کبھی نہ سنی جاتی مگر ہمیں چار پانچ جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے ایسا ہی دباﺅ جاری رکھا تو فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہو جائے گا ‘ ہمیں ایک بڑے صوبے کی ضرور ت ہے جہاں تمام پختون اسمبلی میں اکھٹے بیٹھے ہوں ۔
مہمند ایجنسی کے ملک لعل باچا صافی کا کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحات کی کمیٹی کی پیش کردہ سفارشا ت میں انضمام کی با ت کی گئی ہے اس میں این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد حصہ ‘آرٹیکل 247کا خاتمہ ‘ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی اور قبائل کو بیس ہزار نوکریاں دینا کا ذکر کیا گیا ہے مگر اب بھی وہی مفاد پرست لوگ تاخیر ی حربے استعمال کر رہے ہیں جنہوں نے یہ بل پیش کیا تھا اور اس پر دستخط کئے تھے وہ اب پیچھے ہٹ رہے ہیں لیکن یہ ہوکر رہے گا اور فاٹا کے عوام اصلاحات کروا کر ہی دم لیں گے یہ عناصر آڑے ترچھے راستوں پر چلیں گے مگر عوام بھی اسی طرح پریشر ڈالتے رہیں گے اور کیوں انہوں نے آئندہ الیکشن میں پھر فاٹا کے عوام کے پاس نہیں آنا ؟
دوسر ی طرف ٹی این این نے فاٹا سیاسی اتحاد کے جنرل سیکرٹری اقبال آفریدی اور پختونخوا اولسی تحریک کے سربراہ سید عالم محسود کے ساتھ اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کےلئے ان کی جانب سے جاری احتجاجوں اور دھرنوں کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو بھی کیا ہے جو قارئین کی نذر ہے ۔
ٹی این این :اقبال آفریدی صاحب !سیاسی اتحاد کے بینر تلے جو دھرنے اور احتجاج جاری ہیں ان میں آپ کے ساتھ کون کون سی پارٹیاں شریک ہیں اور اس کا طریق کار کیا ہے ؟
اقبال آفریدی :ہم تقریباً تین سال سے ایف سی آر کے خلاف نکلے ہوئے ہیں پہلے ہمارے ساتھ جے یوآئی اور مسلم لیگ ن بھی شامل تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہم سے راستے جد ا کرلئے ‘اور اب جو ہم نے دھرنوں کا اعلان کیا ہے اس کے تحت ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت گورنر ہاﺅس کے سامنے ایف سی آر کے خلاف اور اصلاحات کے حق میں دھرنا دے گی ‘ہم نے کسی سیاسی جماعت کو کوئی ٹارگٹ نہیں دیا کہ آپ نے فلا ں دن دھرنا دینا ہے جیسا کہ ہمیں ٹاسک ملا تھا کہ پہلا دھرنا پی ٹی آئی نے کرنا ہے تو پھر ہم نے میٹنگ کی او ر ا س میں دھرنے کی تاریخ کا فیصلہ کیا ‘ پھر اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنے لئے دن چنا ‘ اور اب وہ تمام جماعتیں جو ہمارے ساتھ شامل ہیں مل کر ایک اجلاس منعقد کریں گی اور اس میں فیصلہ کرکے ہمیں آگاہ کیا جائے گا کہ ہم نے فلاں دن دھرنا دینا ہے ‘آئندہ دنوں میں پھر انشاءاللہ دھرنے شرو ع ہونگے اور ہمار ے ساتھ پاکستان تحریک انصاف ‘اولسی تحریک ‘ جماعت اسلامی ‘ عوامی نیشنل پارٹی ‘قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی شامل ہیں اس کے علاوہ ہماری خواتین کی ایک تنظیم نے بھی اعلان کیا ہے کہ صر ف خواتین شرکاءپر مشتمل دھرنادیا جائے گا ۔
ٹی این این :ڈاکٹر سید عالم محسود صاحب !اصلاحات تو تمام قبائل چاہتے ہیں آپ کا خاص مطالبہ کیا ہے ؟
ڈاکٹر سید عالم محسود :فاٹا کے عوام الگ سے کوئی قوم یا قبیلہ نہیں تو اس کے لئے احتجاج کیا جارہا ہے حالانکہ اصلاحات کا عمل اتنا طویل نہیں ہوناچاہئے تھا‘ سر تاج عزیز نے خود کہا ہے کہ اسی فیصد قبائل یہ چاہتے ہیں کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہو جائے ‘مگر اب و ہ مرحلہ وار انضمام کی بات کرتے ہیں میں یہ کہتا ہوں کہ قبائل دوسر ے ملک سے آئے ہوئے لوگ نہیں اسی وطن میں بستے ہیں اور تھانوں و عدالتوں سے واقف ہیں اسی ملک میں گھوم پھر کر کاروبار کرتے ہیں تو پھر کیوں ہمیں مرحلوں میں دھکیلا جا رہا ہے بس سیکشن ون ‘ 246اور 247ختم کردیا جائے تو کام ہو جائے گا ۔
اقبال آفریدی:میں ایک اور عرض کرنا چاہتاہوںڈاکٹر صاحب !سیدھے سیدھے ضلعے بنادیں اور جس طرح کا قانون پشاور میں ہے اسی طرح کا خیبر ‘ باجوڑ اور دیگر ایجنسیوں میں لاگو کیا جائے ۔
ٹی این این :اقبال آفریدی صاحب !آپ نے قبائلی علاقوں کے لئے آئین اور اضلا ع بنانے کی بات کی لیکن یہ تو الگ صوبے کی صورت میں بھی ممکن ہے اور اس طرح معترض جماعتوں کا اعتراض بھی ختم ہو جائے گا ؟
اقبال آفریدی :جو امتیازی سلوک ہم سے روا رکھا جا رہا ہے اس تناظر میں مجھے نظر نہیں آتا کہ ہمیں الگ صوبہ دیا جائے گا ‘ہمیں وفاقی وزراءایک جرگہ کی صورت میں آکر گارنٹی دیں کہ اصلاحات اس بات پر تعطل میں نہیں کہ وہ الگ صوبہ مانگتے ہیں اور آپ خیبر پختونخوا میں ضم ہونا چاہتے ہیں اگر وہ کہیں کہ اسی وقت اصلاحات کا اعلان کیاجائے تو ہم ان کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرلیں گے کہ ہمیں الگ صوبہ دیا جائے لیکن اگر اس بناءپر اصلاحات تعطل کا شکار ہیں تو ایسے ڈراموں کے لئے ہم تیار نہیں ‘ اب کی بار ہم خاموش نہیں رہیں گے کیونکہ انہوں نے پہلے ریفرنڈم کا کہا تھا ‘پھر رواج ایکٹ آگیا اور اب تو بات سرد خانے کی نذر ہو رہی ہے ۔
ٹی این این :ڈاکٹر سید عالم محسود صاحب !جیسا کہ اقبال آفریدی صاحب نے الگ صوبے یا کونسل کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سے تنازعہ ختم ہو سکتا ہے تو وہ اس کے لئے بھی تیار ہیں لیکن اگر کوئی گارنٹی ہو تو ‘تو ایسی صورت میں آپ کس بات کی حمایت کریں گے اور کس میں زیاد ہ فائدہ ہوگا ؟
ڈاکٹر سید عالم محسود :اول تو فاٹا پر مشتمل الگ صوبہ عوام بھی نہیں چاہتے اور یہ مطالبہ جو اٹھایا گیا ہے اس کے پس پشت کارفرما نیت فتور پر مبنی ہے‘ دوسری بات یہ ہے کہ فاٹا جغرافیائی لحا ظ سے ایک رسی ہے ‘ تین ایجنسیوں کے درمیان سڑک نہیں ہے پھرآیا وزیرستان کے لوگ باجوڑ کے لوگوں کی غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں ؟اور کیا باجوڑ والے مہمندایجنسی کی غمی خوشی میں شریک ہو تے ہیں ؟ایک وقت میں ہم بھی فاٹا کونسل کے حامی رہے ہیں ‘ کونسل گلگت بلتستان کی وجہ سے لوگوں نے دیکھی اور ایسی کونسل سے تو پرانا ملکانہ نظام بہتر ہے کیونکہ کونسل کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ‘ فاٹا میں ہم نے بلدیاتی انتخابات دیکھے ہیں کیا انہیں کوئی اختیار دیا گیا ؟تو اس سے یہ امر زیادہ بہتر ہے کہ یہ تمام ایک قوم ہے اسے یکجا کر دیاجائے ۔
ٹی این این :اسی طرح اکثر لوگ کہتے ہیں کہ فاٹا کے صوبے میں انضمام پرکوئی اعتراض نہیں لیکن اعتراض اس پر ہے یہ جو پانچ سالہ او ر دس سالہ ترقیاتی پیکج فاٹا کے لئے رکھا گیا ہے پہلے تو اس کو فاٹا میں استعمال کیا جائے اوراگرفوری انضمام ہوتا ہے تو پھر یہ فنڈزاور ترقیاتی منصوبے ختم ہو جائیں گے ‘ پھر اس کا مطالبہ کس سے کیا جائے گا ؟
ڈاکٹر سید عالم محسود !ترمیم میں یہ لکھا جائے گا کہ ان کو دس سال تک سب کچھ دیا جائے گا اگریہ نہیں لکھا جاتا تو پھر کوئی اعتبار نہیں ‘مگر مرحلوں کی بات بنیادی طور پر ملکان کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تنخواہیں ختم ہونے لگی ہیں ۔
ٹی این این :اقبال آفریدی صاحب !آئندہ انتخابات میں آپ صوبائی اسمبلی میں قبائل کو نمائندگی دینے کی حمایت کریں گے یا پھر اس کی حمایت کریں گے کہ پانچ سالہ اور دس سالہ ترقیاتی پروگرام پر عمل ہو تاکہ قبائل کچھ تو ترقی کرسکیں ؟
اقبال آفریدی :دیکھیں جی !بات یہ ہے جس جگہ پی اے فاٹا اور ایف سی آر کا نام آئے گا تو ہم اسے کلی طورپر مسترد کریں گے ‘اور اگر فاٹا کو صوبے میں ضم کردیا گیا تو قبائل آسودہ ہونگے ہی مگر ساتھ میں ان دوسرے لوگوں کا بھلا ہو جائے گا ‘ قبائلی علاقوں کے لئے باہر سے جو روپیہ آرہا ہے اگر یہ خیبر پختونخوا حکومت کے تحت خرچ ہونا ہوتی تو میں کہتا ہوں کہ پھر وزیر اعلیٰ اور دیگر وزراءبھی اس میں مخلص ہوتے اور پھر ہم بھی یہ مطالبہ کرتے کہ یہ جنگ زد ہ علاقہ ہے اس لئے آپ ایک سال کا تمام ترقیاتی فنڈان قبائلی عوام پر خرچ کریں تاکہ یہ دیگر لوگوں کے برابر آجائیں اس میں کوئی نقصان نہیں ۔
ٹی این این :ڈاکٹر سید عالم محسود صاحب !آپ جس قدر بھی کہیں مگر اختلافات پھر بھی تھوڑے بہت موجود ہیں ‘اس لئے اگر دھرنوں کی مشق مسلسل کے بجائے ان لوگوں پر محنت کی جاتی جو ابے اتفاقی کا سبب بنے ہوئے ہیں ؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے؟
ڈاکٹر سید عالم محسود !اس پر تمام محنتیں ہو چکی ہیں اگر کوئی فریب سے سویا ہوا ہو تو اسے جگانا مشکل ہوتا ہے ‘ اتفاق کہیںبھی نہیں ہوتا ‘ کتنے لوگ ہیں جو اسلام کو نہیں مانتے ؟ اور کتنے لوگ ہستی باری تعالیٰ کے منکر ہیں ؟اس لئے ہمارے لئے ہی کیوں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ سب متفق ہوجائیں ؟
ٹی این این :ڈاکٹر سید عالم محسود صاحب!اگر عوام میں اتفاق نہیں ہوتا تو کم ازکم فاٹا کے ارکان پارلیمان تو متفق ہوجائیں ‘ ایسا ہونا چاہئے ؟
ڈاکٹر سید عالم محسود:دیکھیں ہمار ے فاٹا کے موجودہ پارلیمنٹرینز نے سابق نمائندوں کے برعکس ایک کمال کیا ہے کیونکہ ہمارے سابق ارکان نے تو صرف اپنا ووٹ بیچا ہے اس بارانہوں نے ایک آواز تو اٹھائی ہے کہ فاٹا میں اصلاحات ضروری ہیں ۔
ٹی این این :مگر یہ متفقہ مطالبہ تو نہیں ؟
ڈاکٹر سید عالم محسود :اگر اب ان میں اتفاق نہیں تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ تمام بدل گئے ہیں ‘سار ے نہیں بدلے اور جو کنارہ کشی کر رہے ہیں یہ بھی وہ لوگ ہیں جو موروثی طورپر اپنی نشستیں جیتتے ہیں ‘ اس لئے جیسے ان کے اگلے تھے وہ بھی ویسے ہی ہیں ‘ ان کو کبھی بھی قبائل کا مفاد عزیز نہیں ہوتا ‘ دوسر ے یہ کہ تمام کے اتفاق کی بھی ضرورت نہیں ‘ بل قومی اسمبلی میں آئے گا اور قومی اسمبلی میں تمام جماعتیں اس پر متفق ہیں ‘ صرف سولہ ارکان کو اس سے اتفاق نہیں ‘مگر صرف سولہ ارکان کی وجہ اکثریتی ارکان کی پسند کی ترمیم تعطل میں رکھی جا رہی ہے ‘ اس لئے اگر اس میں بد نیتی شامل نہیں تو کیا ہے ؟
ٹی این این :اقبال آفریدی صاحب !ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ اس نہ تو ایم این ایز کا اتفاق ضروری ہے کیونکہ اسمبلی میں اس پر کھل پربحث ہوتی ہے اور نہ ہی عوام کا اتفاق اتنا ضروری ہے کہ تمام توانائیاں اس پر صرف کر دی جائیں کہ تمام متفق ہوجائیں ‘ دوسری طرف آ پ نے اصلاحات کے ضمن میںجوکوشش شروع کی ہے اس سلسلے میں آپ کو کس قدر اور کس قسم کی امید ہے ؟
اقبال آفریدی :امید میں آپ کو دکھاتا ہوں نا ‘ مجھ غریب آدمی کے سات آٹھ لاکھ روپے گیارہ تاریخ کے دھرنے پر اصلاحات کے لئے لگے ‘ آخر مجھ میں اور کتنی انرجی ہوگی ؟ میں کس حد تک جا سکوں گا ‘ دیکھئیے حکمرانوں کو پہلے تو اس وقت تک پولیٹیکل انتظامیہ کے فنڈز بین کر دینے چاہئے جب تک فاٹا کے وجود کا فیصلہ نہیں ہو جاتا کیونکہ جو فنڈز تعلیم ‘ صحت اور بحالی کے ضمن میں آرہے ہیں وہ سفید ریشوں او ر ملکان کی وساطت سے ہمارے خلاف جلسوں اور جلوسوں پر خر چ کردیئے جاتے ہیں میں آپ کو اس کے ثبوت دکھا سکتا ہوں ‘ بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیا کرناچاہتے ہیں ‘ جو کرنا چاہتے ہیں وہ دو منٹ میں ہوجاتا ہے اور جو نہیں کرنا چاہتے اس کے لئے مخالفین تلاش لیتے ہیں اور پھر انہیں ابھارتے ہیں ۔
ٹی این این :ڈاکٹر سید عالم محسود صاحب!آپ اپنی احتجاجی دھرنوں کی تحریک سے کس قدر پر امید ہیں کہ اس سے اصلاحات پر عملد ر آمد ہو جائے گا ؟
ڈاکٹر سید عالم محسود :سب سے پہلے تو عوام کے تعاون کی وجہ سے پر امید ہیں ‘یعنی اگر عوام آپ کے ساتھ نہ ہوں تو کچھ نہیںہوسکتا ‘ جس اندازمیں سیاسی اتحاد کے تین دھرنے ہوئے ہیں اس دھرنے کو پھر اسلام آباد منتقل کرنا ہے ‘تاکہ وہاں پھر فاٹا کے لوگ کثیر تعداد میں ہفتوں اور مہینوں تک دھرنادے سکیں تو پھر یہی عوام کی طاقت سب کچھ ممکن کردے گی ‘جن پارٹیوں کے دھرنے ابھی باقی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے اجتماعات کو بھی کامیا ب کرے تو پھر انشا ءاللہ ہم اپنی منزل کو پا لیں گے ۔
نوٹ :یہ مضمو ن ریڈیو ٹی این این کے پروگرام ” بدلون “ سے لیا گیا ہے جس میں قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں اور اصلاحات کے حوالے سے با ت کی جاتی ہے یہ پروگرام ریڈیو ٹی این این کے پروڈیوسرز شان محمد اور سلمان احمد نے تیار کیا ہے جو فاٹا اور خیبر پختونخوا کے پانچ ریڈ یو سٹیشنز سے نشر ہوتا ہے ۔
رپورٹرز : شاہنواز خان آفریدی ‘نبی جان اورکزئی ‘ شاہ خالد اور حکمت شاہ ۔