ریڈیو ٹی این این

تازہ ترین 
  • بونیر، مکان میں آتشزدگی سے 30 لاکھ روپے کا قیمتی سازوسامان جل کرراکھبونیر کے کوٹ بازار نامی علاقے میں آتشزدگی سے ایک مکان مکمل طور پر جل [...]
  • خیبرایجنسی، شدت پسندی کے دوران متاثرہ گورنمنٹ ہائی سکول عالم گودرحکومتی توجہ کا منتظرخیبرایجنسی کی تحصیل باڑہ میں قائم گورنمنٹ ہائی سکول عالم گودر کی عمارت 2009 میں [...]
  • جامعہ پشاور کے زیراہتمام انٹر گرلز کالجز مقابلوں میں جناح کالج کی پہلی پوزیشنپشاور یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقدہ انٹرگرلز کالجز مقابلے اختتام پذیر ہو گئے۔ آٹھ مختلف گیمز [...]
  • انڈر19کرکٹ ورلڈ کپ، سیمی فائنل میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت آمنے سامنےنیوزی لینڈ میں جاری آئی سی سی انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل [...]
  • کرم ایجنسی، اسلحہ و گولہ بارود کی بھاری کھیپ برآمدلوئر کرم ایجنسی میں سیکیورٹی فورسز نے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد [...]
  

بدلون

فاٹا اصلاحات پر عملد ر آمد کے لئے نوجوان نسل اور طلباء کا احتجاج اور دھرنے

فاٹا اصلاحات پر عملد ر آمد کے لئے نوجوان نسل اور طلباء کا احتجاج اور دھرنے
August 29, 2017

👤by Shan Muhammad

گزشتہ دو سال سے قومی سطح پر فاٹا اصلاحات سے متعلق بات ہو رہی ہے مگر اصلاحات کے طریق کار پر بعض سیاسی جماعتوں اور فاٹا اراکین اسمبلی کے باہمی اختلافات کی وجہ سے گزشتہ چند ماہ سے اصلاحاتی عمل کے حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے گئے اصلاحاتی عمل کی بحالی کے لئے اگر چہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے کوششیں جاری ہیں مگر دوسری جانب فاٹا کے تعلیم یافتہ نوجوا ن بھی ایف سی آر کے خاتمے کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں فوری طور پر اصلاحات پر عملد رآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے لئے انہوں نے احتجاج ‘ ریلیوں اور دھرنوں کا راستہ اختیار کیا ہے اس حوالے سے اسلام آباد میں چند روز قبل مختلف قبائلی علاقوں کے طلباء نے فاٹا اصلاحات میں تعطل کے خلاف احتجاج کی اور دھرنادیا اس موقع پر آل فاٹا سٹوڈنٹس فورم کے صدر فرہاد باجوڑی کا کہنا تھا کہ ان مقصد قومی سطح پر عوام کی محرومیوں کے حوالے سے بیداری اور قبائلی عوام کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا ہے اور ہمار مطالبہ ہے کہ مرکزی حکومت اصلاحات کی سفارشات پر عملد ر آمد کیلئے فوری کام شروع کرے اور ایف سی آر کو ختم کرے ‘ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک بار پھر اس پر مجبور ہوئے ہیں کہ اسلام آباد میں دھرنا دیں تاکہ اہل اقتدار کو اس بات کی سمجھ آجائے ہمارے طلباء جن میں طالبات بھی شامل ہیں اور ہمارے ساتھ میدان میں نکلی ہیں ایف سی آر کا فوری خاتمہ ان کا مطالبہ ہے ہمارے پس پشت ایسی کوئی قوت نہیں جو ہمیں استعمال کر رہی ہو یا احتجاج اور دھرنوں پر اکسا رہی ہو‘ یہ ہماری اپنی سوچ ہے ‘ قبائلی طلباء اب ان سب چیزوں کو سمجھتے ہیں ۔


نمل یونیورسٹی کے ایک طالبعلم عبدالرحمن مہمند کا کہنا ہے کہ ہم سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر میدان میں نکلے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں بھی پاکستان کا آئین نافذ ہو ‘ جس سے ان کے بنیاد ی انسانی حقوق محفوظ ہو سکیں گے ان کا کہناتھا کہ ہمارا بڑا مطالبہ فاٹا میں آئین پاکستان کا نفاذ ہے یہ دھرنا کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے منعقد نہیں کیا گیا بلکہ صر ف طلباء نے اس کا اہتمام کیا ہے البتہ بہت سے عام لوگ اور سیاسی رہنما بھی ہمارے ساتھ اس میں شریک ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے امجد برکی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آج وہ انگریز کی غلامی کے دور کے قانون کے خاتمے کیلئے آزادی کے مہینے میں قبائلی عوام کو اس غلامی سے نجات دلانے کیلئے نکلے ہیں اور یہ احتجاج مطالبات تسلیم کئے جانے تک ہر سطح پر جاری رہے گا ان کا کہناتھا کہ اگست آزادی کا مہینہ ہے ا ور ہم قبائل بھی آزادی چاہتے ہیں جو ہمارا حق ہے اور ہم اپنے احتجاج کا سلسلہ تب تک جاری رکھیں گے جب تک پاکستان کے آئین اور قانون کو قبائلی علاقوں تک توسیع نہیں دی جاتی ۔
اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کے بجائے احتجاجوں میں شرکت کے سوال پر مہمندایجنسی کی سحر حیات کا کہنا تھا کہ میری تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے مگر یہاں آنے والی نسل کے روشن مستقبل کے لئے نکلے ہیں ان کا کہنا تھا کہ تعلیم حاصل کرنا صرف میرے مستقبل کے لئے ہے مگر ایف سی آر کے خلاف نکلنا تمام قبائل کی آئندہ نسلوں کے مستقبل کے لئے ہے اور قبائل کے مستقبل کے حوالے سے آواز اٹھا نا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ۔
مثبت تبدیلی کے جذبے سے سرشار ان طلباء نے عیدالا ضحی کے بعد فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا ا علان کیا ہے اور کہا ہے کہ مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں فاٹا کے لاکھوں عوام اسلام آباد کو بند کردیں گے اور وہاں خیمے لگا کر تب تک احتجاج کریں گے جب تک حکومت فاٹا اصلاحات نافذ نہیں کرتی۔

احتجاج میں شریک جنوبی وزیرستان کی جوانسال تعلیم یافتہ سمرینہ خان کا کہنا ہے کہ وہ ان ہزار وں قبائلی خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں جو قبائلی روایات کے تحت اس قسم کے اجتماعات میں شرکت نہیں کر سکتیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم بھی قبائلی نوجوانوں کے شانہ بشانہ قبائلی عوام کی محرومیوں کے دور کے خاتمے کے لئے نکلی ہیں اور یہ احتجاج قبائلی علاقوں سے متعلق ایک بڑی تحریک کی کڑی ہے ان کا کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے جو قدم اٹھایا گیا ہے اس میں نوجوان نسل پیش پیش ہے چاہے وہ اس ضمن میں اے پی سی طلب کرناہو یا پریس کانفرنس اور احتجاج ہو ‘ ہمارا آج کا دھرنابھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد فاٹا ا صلاحات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرنا ہے ۔


دوسری طرف پشاور میں بھی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء نے چند روز پیشتر فاٹا اصلاحات پر عملد ر آمد یقینی بنانے اور اس کے لئے حکومتی سطح پر سنجیدہ کوشش کیلئے احتجاج کیا اپنے مطالبات کے حوالے سے انہوں نے ٹی این این سے کچھ یو ں گفتگو کی ۔
میرا نام امداد وزیر اور شمالی وزیرستان سے تعلق ہے ہمیں صحیح تعلیم ‘ صحت اور زندگی کی بنیادی ضروریات نہیں مل رہیں کیونکہ ہم ایف سی آر قانون میں گھرے ہو ئے ہیں جیسی سہولیات پنجاب اور سندھ میں لوگوں کو مل رہی ہیں ہم بھی ویسی ہی سہولیات چاہتے ہیں کیونکہ ہم بھی پاکستانی ہیں ۔
میں جنوبی وزیر ستان کا شیر اللہ ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرے قبائلی بھائیوں کو حقوق ملیں اور این ایف سی ایوارڈ میں انہیں پورا حصہ دیا جائے ۔
میرا نام منال حسین اور نمل یونیورسٹی کی طالبہ ہوں میرا تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے مجھے اس بات پر بہت افسوس ہوا کہ ہم اپنا حق مانگنے یہاں آئے ہیں مگر پولیس اس میں ہمارے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے ہمیں نہیں چھوڑ رہی ۔
میں اوکزئی ا یجنسی کا عیسیٰ خان اور پشاور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کا طالبعلم ہوں ‘ فاٹا کی مختلف طلباء تنظیمیں وقتا فوقتا ایف سی آر کے خلاف ریلیاں منعقد کرتی ہیں اور اگر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم نہ کیا تو پھر ہم اسلا م آباد میں دھرنا دیں گے۔
میرا نام مدثر خان بنگش اور کرم ا یجنسی سے تعلق ہے ‘ گزشتہ دو سال سے فاٹا کے طلبا ء ‘ وکلاء اور دیگر رہنما فاٹا اصلاحات کے لئے کوششوں میں جتے ہوئے ہیں مگر حکومت اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی اور فاٹا کے عوام کے کی فریاد سے صرف نظر کر رہی ہے ۔
میں محمدآصف لنڈی کوتل کالج کا سابق صدر ہوں ‘ ہم کہتے ہیں کہ ایف سی آر کو بس اب ختم کردینا چاہئے ایسی جگہ کیسی تعلیم اور کیسی ترقی جہاں ایف سی آر کی طرح کالا قانون موجود ہو اسی وجہ سے بہت سے نوجوان پڑھنے کے بجائے یا تو کنڈیکٹر یا پھر ڈرائیور بن جاتے ہیں اس وجہ سے ہم وہ حقوق چاہتے ہیں جن کی بناء پر ہم آگے کو بڑھ سکیں ۔

ایلیمینٹری کالج جمرود کے محمد رفیق کا کہنا تھا کہ ہمارے احتجاج کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تمام قبائل آج کے احتجاج میں ہمارے ساتھ شریک ہیں اور ایف سی آر کے خاتمے کیساتھ ساتھ آئینی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ہمارا احساس محرومی ختم ہو سکے ۔


میں مہمند ایجنسی کا عمران اللہ عبدالولی خان یونیورسٹی کا طالبعلم ہوں ہم یہ کہتے ہیں کہ فاٹا ریفارمز کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس پر عملد رآمد کیونکر نہ ہوسکا اگر آرٹیکل ایک میں یہ پاکستان کا حصہ ہے تو پھر کیوں آرٹیکل 247 میں اس طرح پاکستان کا حصہ نہیں ‘ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان کے قانون کے تحت وقت نہیں گزارسکتے تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے لو گ بیرون ممالک میں رہتے ہیں اور وہاں کے قانون کے تحت بآسانی وقت گزار رہے ہیں ۔
دوسری طرف ٹی این این نے فاٹاسٹوڈنٹس آر گنائزیشن خواتین ونگ کی سربراہ عزیزہ محسود ‘ فاٹا یوتھ اسمبلی کے رکن دولت خان آفریدی اور خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے فاٹا یوتھ الائنس کے چیئر مین عابد خان اصلاحات سے متلق طلباء کے احتجاج اوردھرنوں کے حوالے سے انٹرو یو کیا ہے جس میں انہوں نے اپنا موقف کچھ یو ں بیان کیا ہے ۔
ٹی این این :عزیزہ محسود صاحبہ !فاٹا کے طلباء ایک بار پھر اسلام آباد میں احتجاج پر نکلے ہوئے ہیں ‘ ان احتجاجوں اور دھرنوں سے آپ کا کیا مقصد ہے ؟
عزیزہ محسود:اسلام آباد میں طلباء کے اکٹھے ہونے کا مقصد یہ ہے کہ فاٹا اصلاحات کاغذی اور تحریری حد تک تو مکمل ہو چکی ہیں مگر ابھی تک ان پر عملد ر آمد نہیں کیا گیا اور یہ روز بروز التواء میں جار ہی ہیں تو ہم نے اس لئے یہ کوششیں شروع کی ہیں تا کہ حکومت اصلاحاتی عمل کے بارے میں سنجیدہ کوششوں کاآغاز کرے اور جہاں تک فاٹا کے صوبے میں انضمام کا تعلق ہے تو اس میں پانچ سال کاوقت لگے گا ‘مگر چاہئے تو یہ کہ ترقیاتی کاموں کا سلسلہ تو شرو ع کرادیا جاتا اس لئے ہم مجبور ہو کر اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔
ٹی این این :عزیز ہ محسود صاحبہ !وہ کونسی طلباء تنظیم ہے جو ان کوششوں میں آپ کی مدد کر رہی ہے ؟
عزیزہ محسود :پشاور میں ہم نے جو دھرنا دیا تھا اس میں ہمارے ساتھ فاٹا کی تمام طلباء تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شریک تھے ۔
ٹی این این :دولت خان آفریدی صاحب !اصلاحات کا عمل تیز کرنے کیلئے احتجاج ہی واحد راستہ ہے یا کوئی اور پلیٹ فار م ہے آپ کے پاس؟
دولت خان آفریدی :میں قبائل کے احتجاج کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتا ہوں جو لائق تحسین ہے کیونکہ قبائل کو ترقی کے لئے کوئی پیکج بھی نہیں ملا اور نہ ہی ہمیں گراؤنڈ پر کچھ نظر آرہا ہے اور متعلقہ اداروں کو معلوم ہو رہا ہے کہ قبائل اب حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں ۔
ٹی ا ین این : عابد خان صاحب !قبائلی طلباء اصلاحاتی عمل پر عملدر آمد یقینی بنانے کیلئے ایک بار پھر اٹھے کھڑے ہوئے ہیں ‘ فاٹا یوتھ کی جانب سے آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
عابد خان :ہر قوم کی تعمیر و ترقی میں نوجوانوں کا بہت بڑا کردا ر ہوتا ہے اور اس میں بنیاد ی بات یہ ہے کہ ہر نوجوان جو کچھ کرتا ہے اسے یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ میری قوم کی ترقی کا سبب بنے گا یا نہیں ؟اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فاٹا کا ہر باشندہ یہ چاہتا ہے کہ اصلاحات ہوں اور اس حوالے سے ان کی جو مشکلات ‘ ضروریات اور روایات ہیں ان کو مدنظر رکھا جائے ۔
ٹی این این :عابد خان صاحب !نوجوان آج کل جو مطالبات کر رہے ہیں آپ ان سے اتفاق کرتے ہیں ؟
عابد خان :ان میں سے جو لوگ رواج ایکٹ نافذ کرنے کے حوالے سے مطالبا ت کر رہے ہیں ہم ان کی شدید الفاظ میں مذمت اور مخالفت کرتے ہیں ‘دوسرے یہ کہ اصلاحات کیلئے جو سمری بنائی گئی ہے وہ رواج ایکٹ کی متقاضی ہے تو پھر اس میں اور ایف سی آر میں کیا فرق ہے ؟بنیاد ی با ت یہ ہے کہ طلباء کسی سیاسی لیڈر کے لئے استعمال نہ ہوں ‘چاہئے یہ کہ وہ یہ با ت سمجھ لیں اور ایسے مطالبات سامنے لائیں جو قوم کی ضرورت اور مفاد میں ہو۔
ٹی این این : عزیزہ محسود صاحبہ !عابد خان کی گفتگو کے حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے ؟
عزیزہ محسود :ہمارے جو پارلیمنٹر ینز جو اسمبلی میں بیٹھے ہیں ہم طلباء ان سے مایوس ہوچکے ہیں اس لئے کہ وہ کچھ نہیں کرسکے اور ہم یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ‘ اسی سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ کس قسم کے حالات سے ہم گزر رہے ہیں اور اس سے ہم میں آگاہی بھی بیدارہوئی اور یہی وجہ ہے کہ ہم سب اپنے حقوق مانگنے کے لئے اکٹھے نکلے ہیں اور رواج ایکٹ تو ایف سی آر کی دوسری شکل ہے ۔
ٹی این این : عزیزہ محسود صاحبہ !آپ کی کوششیں رواج ایکٹ کے لئے ہیں نا کہ فاٹا اصلاحات کے لئے ؟
عزیزہ محسود :ہم تو یہ کہتے ہیں کہ رواج ایکٹ کی تو سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں اس کے علاوہ باقی اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں ۔
ٹی این این :عزیز ہ محسود صاحبہ !آپ کے خیال میں سیاستدانوں کی جانب سے طلباء کو استعمال کرنے کا خدشہ موجود ہے ؟
عزیزہ محسود :جی نہیں اس قسم کا کوئی خدشہ موجود نہیں نہ ہی ہم استعمال ہوئے ہیں اس کے لئے ہم اپنا چودہ نکاتی ایجنڈہ بنا رکھا ہے ۔
عابد خان :میں تو سوچتا ہوں کہ طلباء تذبذب کا شکار ہیں اور بہت غلط استعمال ہوئے ہیں تمام میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلباء ہیں جو پڑھائی کے بجائے کوئی پریس کانفرنسیں کرنے میں لگا ہوا ہے اور کوئی احتجاجوں میں جتا ہوا ہے جس سے ہمارا تعلیمی معیار تباہ ہوگیا ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ میں کیا چاہتا ہوں اور کون مجھے سڑکوں پر لایا ہے ؟اور یہ کہ اس سب پر جو روپے خرچ ہو رہے ہیں وہ کون خرچ کر رہا ہے ؟اور پھر میرا مطالبہ کیا ہے ؟میں رواج ایکٹ کے خلاف ہوں یا ایف سی آر کے ؟چاہئے یہ کہ میں عملی طور کچھ تو پیش کروں کہ رواج کو نہیں مانتا تو کیا مانتا ہوں ؟


ٹی این این :عابد خان صاحب !اس حوالے سے آپ بتائیں کہ آپ کے پا س دوسرا کونسا راستہ ہے ؟
عابدخان :ہم کہتے ہیں کہ یہ جو فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی بات ہے اس کی ہم مخالفت کرتے ہیں کیونکہ صوبے جتنا پھیلے گا تو اس کے مسائل بھی بڑھیں گے ‘جس کے لئے پالیسی بنانا مشکل ہوتا ہے وسائل کی صحیح طور سے تقسیم ہو نہیں پاتی ہم چاہتے ہیں کہ قبائل کو بااختیار آزاد کونسل دی جائے ‘آپ گلگت بلتستان کو دیکھیں دو سال میں انہوں نے کتنی ترقی کرلی و ہ ترقی سے خوش ہیں او ر ان کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔
ٹی این این :دولت خان آفریدی صاحب !آپ عابد خان صاحب کے موقف کے حوالے سے کیا کہیں گے ؟
دولت خان آفریدی :یہ جو الگ صوبے یا کونسل کا مطالبہ کر رہے ہیں اس میں ان کو پانچ فیصد حمایت بھی نہیں ملے گی ‘ میرے اندازے کے مطابق پچیانوے فیصد طلباء فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے حق میں ہیں اور اگر عابدبھائی یہ با ت کرتے ہیں تو ہمیں بتائیں کہ وفاق نے اب تک فاٹا کو کیا دیا ؟ صحت ‘ تعلیم یا انفراسٹرکچر ؟ وفاق نے ہمیں کوئی بھی معیاری چیز نہیں دی۔
عابد خان :انہوں نے تو یہ تمام باتیں ایف سی آر کی موجودگی میں کی ہیں مطلب یہ کہ ایف سی آر قانون ہوگا تو یہ سب باتیں ہونگی جیسا کہ فنڈز نہیں دیئے گئے وغیرہ ‘ میں تو ایف سی آر کی با ت نہیں کرتا بلکہ میں کہتا ہوں کہ ایف سی آر ختم کردیا جائے تو اس کے بعد سب کچھ مل جائے گا اس کے بعد آپ کو آزاد فاٹا کونسل دی جائے گی تو پھر آ پ کا پوچھا بھی جائے گا ‘آپ کا اپنا فنڈ‘ وزیر اور ممبر ہوگا ‘ آپ کے پاس اختیارات ہونگے اور آپ اپنے لئے قانون سازی بھی کرسکیں گے اور اگر فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہو گیا تو بتائیے کہ کتنے فیصد مراعات آپ کو ملیں گی؟اگر پورے فاٹا کو صوبے میں ضم کردیاجائے تو آباد ی کے تناسب سے آپ کو بہت کم فنڈز ملیں گے تو اس سے آپ کیاکیا کریں گے ؟این ایف سی ایوارڈ میں ہمیں تین فیصد حصہ ملے گا تو اس قدر کم فنڈز میں صوبہ اپنا خیال رکھے گا یا میرے فاٹا کا ؟
ٹی این این :عابد خان صاحب ! آپ نے طلباء کے استعمال ہونے کی با ت کی تو ہمیں یہ بتائیے کہ فاٹا گرینڈ الائنس سے نظریاتی وابستگی کے باعث کہیں آپ کی فاٹا سٹوڈنٹس الائنس تو استعمال نہیں ہوئی ؟
عابد خان : میں یہ کہوں گا کہ جس قدر بھی یہ لہر چلی ہے اس میں فاٹا سٹوڈنٹس الائنس نے کسی بھی سیاسی جماعت کے سائے تلے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی ‘ ہم ایک طالبعلم بھی باہر سے نہیں لائے ‘ ہاں بالکل فاٹا کی یوتھ کو ہم استعمال کرتے ہیں اور طلبا ء سے ہم یہ کام لیتے ہیں کہ انہیں کہتے ہیں کہ فاٹا کے حالات کے حوالے سے کالم لکھیں ‘ رواج ایکٹ کی وضاحت لکھیں ‘سوشل میڈیا پر کام کریں ‘ مگر اس صورت میں انہیں کبھی استعمال نہیں کیا کہ وہ فلاں خان زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگائیں ‘بنیادی بات یہ ہے کہ لوگ ان مطالبات کی سمجھ ڈالیں کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں ؟اور ہمیں کیا دیاجا رہا ہے تو پھر ہمارے مسائل حل ہوں گے۔
ٹی این این :دولت خان آفریدی صاحب !آپ کیا کہتے ہیں کہ طلباء کو ان سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہئے یا اپنی پڑھائی پر توجہ دینا چاہئے ؟
دولت خان آفریدی :میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی میڈیکل یا انجینئرنگ کرلے اور اسے یہ پتہ نہ ہو کہ اس کی قوم کی ضرورت کیا ہے تو یہ ایک بہت یہ قابل افسوس امر ہوگا ‘طلبا ء کو چاہئے کہ اس تحریک میں بھر پور کردار ادا کریں ایک طالبعلم کی پہلی ذمہ داری اس کی تعلیم ہے دوسرے نمبر پر اسے چاہئے کہ اپنی قوم کی ضروریات کو جانے اور چاہئے یہ کہ قومی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرے ۔
ٹی این این :عزیزہ محسود صاحبہ !آپ فاٹا کے صوبے میں انضمام کے جو فوائد سمجھتی ہیں تو آپ نے ان سے اپنے عمائدین اور قبائل کو کس حد تک آگاہی فراہم کی ہے ؟
عزیزہ محسود :اس کے لئے تو ہم نے کرم ایجنسی او رجنوبی وزیرستان میں آگاہی مہمیں چلائی ہیں ہم نے زیادہ تر پشاور میں خواتین کو فاٹا اصلاحات کے حوالے سے آگاہی سیشنز کرائے ہیں اور عابد نے جو تعلیم کی بات کی تو اس سر گرمیوں سے ہماری تعلیم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
ٹی این این :عزیزہ محسود صاحبہ !آپ کی عوام کو آگاہ کرنے کی مہم کا قبائلی عوام کی سوچ پر کس قدر اثر ہوا ہے ؟
عزیزہ محسود :ہماری ہی سرگرمیوں کی باعث اب قبائلی عوام متوقع تبدیلی کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکے ہیں ۔
ٹی این این :دولت خان آفریدی صاحب !فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ایک جانب سے مخالفت بھی کی جارہی ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قبائل کو ایک پیج پر لانا ممکن ہوگا ؟
دولت خان آفریدی :میرے خیال میں اس سلسلے میں بہت کوششیں کی گئی ہیں ‘اور اب عوام کسی دوسرے کی رائے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہونگے ‘ مگر اس بارے میں ریفرنڈم کرایا جایا جانا چاہئے ‘اس میں تینوں سوچیں رکھنے والے یعنی الگ صوبے ‘ آزاد کونسل اور انضمام چاہنے والے اپنی رائے کا اظہار کرسکیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ زیادہ تر لوگ کس جانب ہیں‘اور رائے لینے کی وجہ یہ ہے کہ تاحال حکومت اصلاحات کے عمل کو سمجھ نہیں سکی کہ اسے کیسے کرنا ہے ‘ ریفرنڈم سے سب کچھ واضح ہو جائے گا ۔
ٹی این این :عابد خان صاحب !آپ کے الگ صوبے یا کونسل کے مطالبے کی وجہ سے اگر سارا صلاحاتی عمل رک جاتا ہے تو آپ ان عوام کو کیا جواب دیں گے جو اصلاحات چاہتے ہیں ؟
عابد خان :یہ جو چاہتے ہیں بس یہ ٹھیک ہے ہم خیبر پختونخوامیں ضم ہو جاتے ہیں لیکن اگر کل کلاں حقوق اور وسائل کی تقسیم پر جنگ ہوئی تو پھر کیا صورت ہوگی ؟کیا یہ ہونا چاہئے کہ آنکھیں بند کرکے بات تسلیم کرلیں ؟یایہ ہوناچاہئے کہ جس کا جو مطالبہ ہو اسے دیکھا جائے کہ وہ کیا مانگتا ہے ؟دولت خان بھائی نے جو پچیانوے فیصد کی با ت کی ہے تو اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پچیانوے فیصد لوگ متفق ہیں تو پھر یہ عمل کیوں رکا ہوا ہے ؟آیا پانچ فیصد لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے پچیانوے فیصد پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہ صوبے میں انضمام والے جو روز دھرنادیتے ہیں کبھی کہتے کہ تیس لاکھ لوگ دھرنے میں شریک تھے اور کبھی یہ تعداد چالیس لاکھ بتاتے ہیں مگر جب اسلا م آباد آتے ہیں تو چار یا پانچ سو لوگ ہوتے ہیں جن میں بعض کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں ‘ یہ ضروری نہیں کہ ہم راتوں رات اصلاحات کرالیں بنیادی با ت یہ ہے کہ آپ قوم کے لئے جو قانون لارہے ہیں آپ اس سے مطمن ہوں کہ اس سے قوم کے مسائل حل ہو سکیں گے ‘ باقی ہم زیادہ لوگوں کی رائے سے متفق ہیں مگر قبائل سے بھی پوچھناضروری ہے ۔


یہ مضمون ریڈیو ٹی این این کے پروگرام ’’بدلون ‘‘ سے لیا گیا ہے جس میں قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں اور اصلاحات کے حوالے سے بات کی جاتی ہے یہ پروگرام ریڈیو ٹی این این کے پر وڈیوسرز شان محمد اور سلمان احمد نے تیار کیا ہے جو فاٹا اور خیبر پختونخوا کے پانچ ریڈیوسٹیشنز سے نشر ہوتا ہے ۔
رپورٹرز : شاہ نواز آفریدی ‘ نبی جان اورکزئی ‘ بلال محسود اور حکمت شاہ

کمنٹس

متعلقہ مضامین

Scroll Back To Top

ٹی این این ‏موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

فیچرز اور انٹرویو- تازہ ترین

  • صلاحیتوں کے باوجود فاقوں پر مجبور خاندان حکومتی توجہ کا منتظر vlcsnap-2017-10-29-11h56m36s65

    رضوان محسود خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں لکڑیوں، دیواروں اور دیگر ٹھوس اشیاء پر خوبصورت اور دلفریب نقش و نگاری کےلئے شہرت رکھنے والے خاندان کا کہنا ہے کہ اس ہنر کی وجہ سے نہ تو انہوں نے کوئی فائدہ حاصل کیا ہے اور نہ کسی اور نے فائدہ دینے کی کوشش کی […]

  • خیبر ایجنسی سے ملنے والے بعض نوادرات پتھر کے دور کے ہیں 20170828_135445

    شاہ نواز آفریدی خیبر ایجنسی میں ہزاروں سال پرانے قدیمی آثار نے اس علاقے کی تاریخی حیثیت کو بڑھا دیا ہے مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان آثار کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے، خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد خان کا کہنا ہے کہ جمرود […]

سب سے زیادہ مقبول

    پشاور میں جائیداد کے تنازعہ پر فائرنگ، 3 بھائیوں سمیت 4 افراد جاں بحق

پشاور میں جائیداد کے تنازعہ پر فائرنگ، 3 بھائیوں سمیت 4 افراد جاں بحق

مزید پڑهیں
     قبائلی علاقوں کو جلد قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔ اقبال ظفر جھگڑا

 قبائلی علاقوں کو جلد قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔ اقبال ظفر جھگڑا

مزید پڑهیں
    ‘فنڈز کے بروقت اجراء میں تاخیر کا ذمہ دار وزارت خزانہ نہیں فاٹا سیکرٹریٹ ہے’

‘فنڈز کے بروقت اجراء میں تاخیر کا ذمہ دار وزارت خزانہ نہیں فاٹا سیکرٹریٹ ہے’

مزید پڑهیں
    ‘ریڈیو مشعال کی نشریات پر عائد پابندی ہٹائی جائے’

‘ریڈیو مشعال کی نشریات پر عائد پابندی ہٹائی جائے’

مزید پڑهیں
    آئس نشہ کی روک تھام کیلئے خیبرپختونخوا کنٹرول آف نارکاٹکس قانون 2017 میں ترمیم منظور

آئس نشہ کی روک تھام کیلئے خیبرپختونخوا کنٹرول آف نارکاٹکس قانون 2017 میں ترمیم منظور

مزید پڑهیں

بدلون

  • فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لئے تحریک کے حوالے سے قبائلی عوام کا موقف 

    فاٹا کو الگ سے صوبہ بنانے کیلئے تحریک کے رواں ا صلاحاتی عمل پر ا ثرات اور نفع نقصان کے بارے میں ٹی این این نے فاٹا کے مختلف علاقوں کے عوام کی رائے معلوم کی ہے جنہوں نے اپنی آراء کا کچھ یوں اظہار کیا ہے ۔ میرا نام شیر عالم اور جنوبی وزیرستان […]

  • فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کیلئے تحریک جاری رکھیں گے ‘ فاٹا گرینڈ جرگہ

    نشتر ہال میں جرگہ کے اہتمام کرنے والے ملک عطاء اللہ جان محسود او ر جے یو آئی ف فاٹا کے امیر مفتی عبدالشکور فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کو ممکن اور اس کے لئے صدر مقام کے ا نتخاب کو بھی ایک آسان مرحلہ سمجھتے ہیں ‘ اس تحریک کے حوالے سے ٹی این […]

فیس بک پر

منزل په لور

  • فاٹا کے نوجوانوں کی ملازمت کے مطالبات و تجاویز Unemployment

    وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں آپریشن کے باعث بے گھر ہونے والے خاندانوں کی واپسی قریباً مکمل ہوگئی ہے تاہم اپنے علاقوں کو واپس آنے والے نوجوانوں کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ یہ نوجوان نہ صرف سرکاری محکموں میں ملازمتوں کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ فاٹا میں […]

  • فاٹا کے والدین بچوں کی ملازمت کےلئے پریشان Habib-Ali-Kurram-Agency-680x365

    فاٹا میں امن کے قیام کے بعد واپس جانے والے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری کا سامنا ہے، ان بے روزگار نوجوانوں میں بیشتر کو والدین نے غربت کے باوجود اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے تاہم یہ والدین اپنے بچوں کی بےروزگاری کے باعث انتہائی پریشان ہیں۔ کرم […]

ٹویٹر پر

ارکائیو

January 2018
M T W T F S S
« Dec    
1 2 3 4 5 6 7
8 9 10 11 12 13 14
15 16 17 18 19 20 21
22 23 24 25 26 27 28
29 30 31