عرصہ سے التواء کا شکار فاٹا اصلاحات عمل کی دوبارہ بحالی اور رواج ایکٹ کے بجائے نیا مسودہ

سال 2015ء سے شروع ہونے والی فاٹا اصلاحات سیاسی اختلافات کی وجہ سے تعطل کا شکار تھیں جس کی وجہ سے اس سلسلے میں حکومتی سطح پر بھی کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے ‘ مگر نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی کابینہ نے اب ایک بار پھر یہ عمل بحال کردیا ہے اور رواج ایکٹ کی جگہ نیا قانونی مسودہ لانے کی ہدایات بھی رواں ماہ کی تیرہ تاریخ کو جاری کی ہیں ‘ فاٹا اصلاحات کے اس عمل میں خصوصی طور پر قبائلی علاقوں تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے ‘ ایف سی کے بجائے پولیس فورس کا قیام ‘ فاٹا کو خیبر پختونخوا شامل کرنا اور وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ قومی مالیاتی ایوارڈ میں حصہ دینے پر توجہ دی جارہی ہے ۔
رواں سال 2مارچ کو وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد فاٹا اصلاحات بل چھ ماہ تعطل میں رہا اور اب اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے دوسری جانب وزیر مملکت سیفران غالب خان کی قیادت میں فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی نے رواج ایکٹ کی جگہ ایک نیا مسودہ قانون لانے کا فیصلہ بھی کیا ہے ‘ فاٹا کے پارلیمانی اراکین اس نئی پیش رفت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں اصلاحات کا مستقبل کیسا دکھائی دیتا ہے ؟ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں فاٹا کے پارلیمانی لیڈر ناصر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ یہ بہت اچھی پیش ر فت ہے کیونکہ اصلاحات کے حوالے سے ہمیں حکومت سے جو بھی ملتا ہے وہ ٹھیک ہی ہوگا ‘ فاٹا کے لئے چیف آپریٹنگ آفیسر کی تعیناتی کی سفارش کی ہم نے مخالفت کی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے لامحدود اختیارات دیئے گئے ہیں ‘ نئے مسودے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا جس پر اختلاف ہوسکے ‘یہ مسودہ اتفاق اور قبائل کی بہتری کے تناظر میں بنایا جائے گا ‘ جو کچھ ابھی ممکن ہے وہ اسی دورحکومت میں کردیا جائے گا اور باقی کام آئندہ حکومت مکمل کرے گی ۔
فاٹا اصلاحات بل کی منظوری سے نہ صرف قبائلی عوام کو اعلیٰ عدالتوں تک رسائی مل جائے گی بلکہ ایف سی آر کے خاتمے سے ان کو ان کے بنیادی حقوق میں میسر ہو جائیں گے ‘دوسری جانب فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے تک عبوری مدت کے لئے چیف آپریٹنگ آفیسر کے عہدے اور ایف سی کی جگہ پولیس فورس کے قیام کی سفارش بھی کی گئی ہے ‘ اصلاحاتی بل منظور ی کے بعد کس طرح نافذ ہوگا اس حوالے سے خیبر ایجنسی سے منتخب رکن قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل کا کہنا ہے کہ انضمام چاہتے ہیں اس لئے خیبر پختونخوا میں جو ڈی آر سی نظام پہلے ہی کامیابی سے جاری ہے اگر اس کو فاٹا تک توسیع دی جائے تو انضمام کے حوالے سے کوئی قانونی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا ‘ ڈی آر سی کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ جنوبی وزیرستان میں محسود ‘ وزیر اور برکی قبائل ہیں اور ان کا الگ الگ رواج ہے تو ڈی آر سی نظام متعارف کرانے سے وہاں بھی رواج کے مطابق فیصلے کئے جائیں گے ‘ یہ ممکن نہیں کہ کسی ایک بات پر سو فیصد اتفاق ہو اور پھر قبائلی علاقہ جہاں ڈیڑھ سو سال سے ایک نظام ہے اور بڑی بڑی مافیا ز اسے اپنے مفاد کی نظر سے دیکھتی ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ ان کے پیچھے عوام کی طاقت نہیں ‘ ہم نے نو اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ اس سے قبل اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔
دوسری جانب شمالی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور سیفران کے وز یر مملکت غالب خان کا کہنا ہے کہ فاٹا کے پارلیمانی اراکین اصلاحات سے زیادہ اپنے ذاتی کاموں کو ترجیح دیتے ہیں مگر اصلاحات کے عمل کو کامیاب بنانے کیلئے تمام کا اکٹھا ہونا ضروری ہے ‘ ان کا کہنا تھا کہ کوئی نیا مسودہ نہیں مگر ہم نے یہ اس لئے کہا کہ تمام اکٹھے ہوجائیں کیونکہ فاٹا میں رائج اس نظام کو تبدیل ختم کرناہے ‘ اس میں ہمارے فاٹا کے ایم این ایز خود دلچسپی نہیں لیتے ‘ ہمارے کل کے اجلاس میں بھی چند لوگوں نے شرکت نہیں کی مگر پھر یہی لوگ باہر نکل کر چیخیں مارتے ہیں ‘ پھر یہ کیوں چیختے ہیں ؟وہ آکر مل بیٹھیں پھر معلوم ہوگا کہ کون کیا چاہتا ہے ‘ آرمی چیف اور میں نے بھی یہ کہا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں وہ بتادیں تاکہ اس پر عملد ر آمد کیا جاسکے ‘اصلاحات کے حوالے سے ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں مگر فاٹا کے پارلیمانی اراکین اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دے رہے ۔غالب خان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت فاٹا اصلاحات میں سنجید ہ اور اس حوالے سے ہر قسم کے اقدامات کیلئے تیار ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اور تمام ادارے فاٹا اصلاحات میں سو فیصد سنجیدہ ہیں ۔
دوسری جانب فاٹا اصلاحاتی عمل کی ایک بار پھر بحالی اور رواج ایکٹ کی جگہ نیا مسودہ لانے کے حوالے سے قبائلی عوام نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں اپنا نکتہ نظر کچھ یوں بیان کیا ہے ۔
میرانام حسن اور تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے ‘ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فاٹا اصلاحاتی عمل پر دوبارہ کام شروع کرنے کی جو با ت کی ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں یہ بہت خوش آئند امر ہے ۔
میں شمالی وزیر ستان کا مصطفی محسود ہوں ‘ ہماری یہ اپیل ہے کہ اصلاحاتی عمل پر جلد از جلد کام مکمل کیاجائے تاکہ یہ موجودہ دور حکومت میں ہی تکمیل تک پہنچ جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں فاٹا کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کا تعین ہو سکے ۔
میرا نام محمد بشیر ملانی ہے اور تعلق پارا چنا ر کرم ایجنسی سے ہے میری تمام اداروں سے درخواست ہے کہ جب ہمیں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیا جاتا ہے توپھر ہمارے ساتھ ایک پاکستانی جیسا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اگر کوئی اس سلوک کو اچھا قرار دیتا ہے تو آئے اور پارا چنار کے سکولزمیں اپنے بچوں کو داخل کرائے اور پارا چنار کے ہسپتال میں اپنا علاج کرائے ‘ اگر آپ ہمیں اسلام آباد سے نتھی کرتے ہیں تو پھر ان ایجنسیوں میں اسلام آباد والا قانون نافذکیا جائے ہمیں وہ پسند ہے ۔
میں انور اورکزئی قوم اخیل سے تعلق رکھتا ہوں ‘ رواج ایکٹ کی جگہ اب ایک اور قانون کی بات کی جارہی ہے مگر جب فاٹا کا صوبے میں انضمام ہونے جارہا ہے تو پھر کسی رواج ایکٹ یا نئے قانون کی ضرورت نہیں ‘1973ء جو آئین صوبے میں نافذ ہے وہ فاٹا میں بھی لاگو کیاجائے ۔
میرا نام شاکر آفریدی ہے اور تعلق باڑہ خیبر ایجنسی سے ہے ‘ سیاسی جماعتیں اگرچہ اس حوالے سے اپنی سرگرمیوں میں جتی ہو ئی ہیں مگر میرا اپنا خیال یہ ہے کہ وفاقی حکومت اصلاحات کے ضمن میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے گی ۔
میں مہمند ایجنسی کا زیارت گل مہمند ہوں ‘ ہم اصلاحات کے عمل سے اس لئے پر امید تھے کہ اس سے ہماری مشکلات کا خاتمہ ہوگا ‘ رواج ایکٹ ہم نے اس لئے تسلیم کیا تھا کہ ہم رواج کو سمجھتے ہیں ‘ اب ہمیں جو قانون دیا جارہا ہے ہمیں اس کی سمجھ نہیں ‘ ہمارے لوگ تعلیم یافتہ نہیں ‘اب جو اس ضمن میں کہا جا ر ہا ہے کہ قبائل اسلام آباد ہائی کورٹ جائیں گے تو ہمارے لوگ یہاں تحصیلدار اور ڈپٹی کے دفاتر سے واقف نہیں وہ اپنا دعویٰ دائر کرنے اسلام آباد کیسے جائیں گے ؟ ان کے پاس وکیل کو دینے کیلئے کچھ نہیں ‘ یہاں تو ان کا کام بغیر پیسے کے آسانی سے ہو جاتا ہے ‘ یہ نظام وہ لوگ چاہتے ہیں جو صاحب ثروت ہیں اور ان کا مقصد بھی اپنے ووٹ اور مفاد کا تحفظ ہے ۔
میرا نام سجاد مہمند ہے اور تعلق مہمند ایجنسی سے ہے رواج ایکٹ پر اعتراض یہ تھا کہ یہ ایف سی آر کی دوسری شکل ہے ‘ ہم نے فاٹا میں 2018ء کے انتخابات کے انعقاد اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا مطالبہ کیا تھا مگر اس کے باوجود اب جو وزیر اعظم اپنی خواہش کے مطابق فاٹا پر ایک نئی قسم کا مارشل لا نافذ کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں بالکل منظور نہیں ‘ ہمیں سول حکومت اور عام پاکستانیوں کو حاصل حقوق دئیے جائیں ‘ ہمیں اور کچھ نہیں چاہئے ‘اب تک تو اس ضمن میں کچھ نہیں کیا گیا مگر صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اب حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل فاٹا کا سی او او ہوگا لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر مقامی عوامی نمائندے کا کیا اختیار ہوگایہ واضح نہیں کیا گیا ‘ یہاں جو انتظامیہ ہوگی وہ کیا کام کرے گی ؟ عوام کو کونسا قانون دیا جائے گا ؟اور قانون کونسا ہوگا ؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ۔
میں باجوڑ ایجنسی کا رہائشی محمد رازق ہوں ‘ جو عمل دوبارہ شروع کیا گیا ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس سے ہمیں ایف سی آر سے نجات مل جائے گی اس لئے ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں ‘ رواج ایکٹ کی جگہ جو قانون لایا جارہا ہے وہ ایک تعلیم یافتہ سوچ ہے ‘ پاکستان کا جو قانون ہے وہ ہمارا رواج ہے اور رواج کوئی اتنی بڑی چیز نہیں کہ ہم نے ہر کام اسی کے تحت کرناہے ۔
دوسری جانب ٹی این این نے فاٹا سیاسی اتحاد کے سینئر نائب صدر نثار مومند اور فاٹا گرینڈ الائنس کے رہنما ملک وارث خان آفریدی کے ساتھ اصلاحاتی عمل میں پیش رفت اور رواج ایکٹ کی جگہ نیا مسودہ لانے کے حوالے سے ایک تفصیلی انٹر ویو بھی کیا ہے جس قارئین کی نذر ہے ۔
ٹی این این :ملک وارث خان صاحب !فاٹا اصلاحات عرصہ سے تعطل کا شکار تھیں اور اب بہت سی تنقید کے بعد یہ عمل بحال ہوا ہے ‘ آپ کا اس حوالے سے کیا نکتہ نظر ہے ؟
ملک وارث خان آفریدی :یہ بات تو کافی عرصہ سے جاری ہے کہ اصلاحات کرکے قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے ‘اصلاحات ہم بھی چاہتے ہیں مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات دیکھی جائیں کہ آیا عوام ان سے متفق ہیں اور وہی چاہتے ہیں جو یہ کمیٹی اب کہتی اور چاہتی ہے ؟ ریکارڈنگز اٹھا کر دیکھ لیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر اس کا انجام یہی ہوگا کہ برسوں گزر جائیں گے مگر یہ قضیہ یونہی اپنی جگہ برقرار رہے گا ۔
ٹی این این :نثار مومند صاحب !فاٹا اصلاحات اسی شکل میں اسمبلی بھجی گئی ہیں جس میں وفاقی کابینہ نے انہیں منظور کیا تھا ‘ کیا آپ اب مطأن ہیں یا نہیں ؟
نثار مومند :آپ کے سوال کے جواب کی جانب آتا ہوں مگر پہلے ملک صاحب کی یادداشت کیلئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم بھی یہ ریکارڈ مانگتے ہیں ‘ اور انہی مطالبات کا نتیجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائل کے حق میں کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے ۔
ٹی این این :نئے بل کے مطابق گورنر ‘ فاٹا سیکرٹریٹ اور دیگر انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود فاٹا کے لئے سی او او کی سفارش کے حوالے سے آپ کا کیا نکتہ نظر ہے ؟
نثار مومند :فاٹا میں چیف آپریٹنگ آفیسر کا کام یہ ہوگا کہ این ایف سی ایوارڈ میں ہمیں جو حصہ دیا جائے گا اگر یہ سی او او کے ذریعے ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جائے تو میرے خیال میں اس میں کوئی برائی نہیں ‘ سی او او ایک مقررہ مدت کیلئے ہوگا ‘ جب یہ مدت ختم ہوجائے گی تو یہ عہدہ بھی ختم ہوجائے گا ‘ مگر اس میں اصل نقصان والی بات یہ ہے کہ وفاق کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو فاٹا تک توسیع دی جائے گی مگر فاٹا میں پشاور ہائیکورٹ کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا گیا ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ جیسے ہمیں صوبے میں ضم نہیں کیا جارہا ‘ اس اقدام سے ہمیں وفاق کی نیت میں کھوٹ دکھائی دیتا ہے ۔
ٹی این این :تو ایسے حالات میں آپ کا ردعمل کیا ہوگا ؟
نثار مومند :ہمیں اپنی قوت کے مظاہرے میں جتے ہوئے ہیں اس کیلئے ہم نے نو اکتوبر کو اپنا ایک اجلاس بھی بلا رکھا ہے اور اگر حکومت اصلاحات اور ا نضمام میں مخلص نہیں تو پھر اپنے حقوق کیلئے اسلام آباد تک ریلی بھی نکالیں گے ۔
ٹی این این :ملک وارث خان صاحب !پہلے پہل آپ کی سرگرمیاں بڑی شد ومد سے جاری تھیں مگر اب اصلاحاتی عمل دوبارہ شروع ہونے کے بعد اس میں کچھ کمی آئی ہے ‘ اس کی کیا وجہ ہے ؟
ملک وارث خان آفریدی:ہم آرام سے نہیں بیٹھے ‘ آئندہ اتوار کو بھی ہمار ا ایک پروگرام منعقد ہو رہا ہے اور چودہ اکتوبرکو ہم نے ایک کنونشن کا اہتمام کیا ہے ‘ ہم نے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں ۔
ٹی این این :فاٹا کیلئے سی او او کی تعیناتی کی سفارش کے حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے ؟
ملک وارث خان آفریدی:افسوس تو اسی پر ہے کہ لوگ ابھی متفق نہیں ہوئے اور نئے نئے قصے گھڑے جار ہے ہیں ‘ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں اس وقت صرف دو ایشوز سے بات ہو رہی ہے ایک پاناما لیکس اور دوسرے فاٹا کا انضمام ‘ یہ کوئی نہیں کہتا کہ سب سے زیادہ ضروری امن ہے اور پھر بے روزگاری کا خاتمہ ‘ کسی کو یہ فکر نہیں کہ لوگوں کو کس طرح روز گار دیا جائے گا ‘ حالیہ مردم شماری کو دیکھیں ‘ ہم قبائل تیرہ چودہ سال کی عمر کی شادی کرتے ہیں بعض تو دو اور تین شادیاں کرتے ہیں مگریہ آواز کوئی نہیں اٹھاتا کہ قبائل کیوں کم ہو رہے ہیں بڑھ کیوں نہیں رہے ؟
نثار مومند :ملک صاحب نے مردم شماری کی بات کی ‘ میں سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کہتا ہوں کہ ہم نے حالیہ مردم شماری کو مسترد کردیا ہے اور میں نے کچھ اعدادوشمار بھی جمع کر رکھے ہیں ہم نے دس لاکھ چوبیس ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلائی اسی تناسب سے ہماری آبادی ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے ‘ ہمارے ساتھ گنتی میں غلطی ہوئی ہے جسے ہم نے رد کردیا ہے ۔
ملک وارث خان آفریدی :ہمارے لئے جو نظام وضع کیا جارہا ہے اس پرحکومت قدم پہلے اٹھاتی ہے اور سوچتی بعد میں ہے ‘ پہلے اصلاحات اصلاحات کی چیخیں تھیں مگر اب اپنی اصلاحات پر بھی متفق نہیں ‘ ان کے پاس کوئی طریق کار نہیں اور ہمیں بھی گلہ اس کا ہے کوئی یہ آواز نہیں اٹھاتا کہ پولیٹیکل ایجنٹ اور اے پی اے کے اختیارات میں کمی کی جائے ‘ انہوں نے صرف انضمام کی رٹ لگا رکھی ہے ۔
ٹی این این :نثار مومند !رواج ایکٹ کے حوالے سے بہت تحفظات اور تنقید سامنے آئی کہ یہ ایف سی آر کی دوسری شکل ہے اب جو نیا مسودہ لایا جارہا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
نثار مومند :ہمارا اصل مطالبہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں 1973ء کا آئین براہ راست نافذ کیا جائے ‘ رواج ایکٹ یا کوئی اور بل ہمار ا مطالبہ نہیں ‘ مگریہ جو نیا مسودہ ہمارے لئے لانا چاہتے ہیں او ر اعلیٰ عدلیہ تک رسائی بھی دیتے ہیں تو جب ہمیں سپریم کورٹ تک رسائی مل جائے گی تو باقی باتیں بعد ازاں وقت کے ساتھ خود ختم ہو جائیں گی ‘ کیونکہ یہ آئین سے متصادم ہونگی ‘ کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے کہ ہم ایک راستے پر چل پڑیں ۔
ٹی این این :ملک صاحب !آپ کا اس حوالے سے کیا نکتہ نظر ہے ؟
ملک وارث خان آفریدی :میں تو یہ کہتا ہوں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مصداق ہم اپنی چال بھول جائیں اور ان کی چال بھی نہ سیکھ پائیں‘ اس کے لئے ٹائم فریم ضروری ہے اور جب یہ لوگ تعلیم حاصل کرلیں گے تو ان کو خود ہی علم ہوجائے گا کہ قانون کسے کہتے ہیں اور یہ کام کیسے کرتا ہے ؟ اس کیلئے قریباً پچیس سال کا وقت دینا چاہئے جب قبائل میں تعلیم عام ہوجائے گی تب ہی کچھ ممکن ہوسکتا ہے ۔
نثار مومند :کیا ہم نے ستر سال تک پاکستان کا یہ نظام نہیں دیکھا ؟ نہ ہم اسے سمجھ سکے اور نہ ہی جان سکے ؟ اس کیلئے ہمیں مزید کتنا وقت دینا ہوگا ؟ مجھے اس منظق کی سمجھ نہیں آتی ۔
ٹی این این :اسلام آباد میں فاٹا اصلاحات کی بات کی جارہی ہے اور یہاں قبائل کے دو رہنماء متفق نہیں ‘ یہ فاٹا کے عوام کے مفاد میں ہے کہ نہیں ؟
ملک وارث خان آفریدی :اگر یہ سب کچھ مشاورت سے ہو تو اس میں ان کا فائدہ ہوگا ‘ اس کے لئے مقتدر لوگوں مثال کے طور پر وزیر اعظم اور صدر مملکت کا حق ہے کہ وہ قبائلی عمائدین کو بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ وہ کیوں انضمام نہیں چاہتے ؟ جب ہمیں انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کردیں یا پھر وہ ہمیں سمجھا دیں تو ایک طریق کار بن جائے گا اور تنازعہ ختم ہوجائے گا ۔
ٹی این این :نثار مومند صاحب !کیا یہ ممکن ہے کہ جن امور پر اختلاف ہے انہیں پس پشت ڈال کر متفقہ امور کو سامنے رکھا جائے ؟
نثار مومند :یہ بات عیاں ہے کہ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے ‘ اور ترقی بھی دونوں چاہتے ہیں ‘ دوسرے یہ کہ قبائلی علاقے ان ستر برس میں کیوں پسماندہ رہ گئے ہیں ‘ پشاور کی حدود ختم ہوتے ہی تحصیل جمرود شروع ہوجاتی ہے مگر کارخانوں میں گیس ہے اور جمرود کو گیس نہیں دی جارہی اور اس لئے نہیں دی جارہی کیونکہ اس نظام نے ہمیں تکالیف میں جکڑ رکھا ہے اور اگر انضمام ہوجاتا ہے تو پھر انہیں ہمیں بھی گیس دینا ہوگی ‘ ہمارا بجلی اور دیگر معدنیات پر جو حق بنتا ہے وہ ہمیں 1973ء کے آئین کے تحت ملے گا ۔
ملک وارث خان آفریدی :مجھے بتایا جائے کہ کے ٹی ایچ اور ایل آر ایچ کی طرح ہسپتال دیگر علاقوں میں ہیں ؟ آیا دیگر اضلاع میں پانی کی ایسا نظام ہے ؟
ٹی این این :ملک وارث خان آفریدی:ہم کہتے ہیں کہ امن مقدم ہے اور ہمیں اس کے لئے وقت دیا جائے ‘ جس میں حکمرانوں کو چاہئے کہ تعلیم کو عام کریں ‘ وہاں ترقیاتی کام کرائیں اور پھر ہم سے پوچھا جائے آپ انضمام چاہتے ہیں یا الگ صوبہ ؟ جب تک لوگو ں کی رائے اور مشورہ حاصل نہیں کیا جاتا اور کوئی فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو وہ پائیدار نہیں ہوگا ۔
نوٹ :یہ مضمون ریڈیو ٹی این این کے پروگرام ’’ بدلون ‘‘سے لیا گیا ہے جس میں قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں اور اصلاحات کے حوالے سے بات کی جاتی ہے ‘ یہ پروگرام ریڈیو ٹی این این کے پروڈیوسرز شان محمد اور سلمان احمد نے تیار کیا ہے جو فاٹا اورخیبر پختونخوا کے پانچ ریڈیو سٹیشنز سے نشر ہوتا ہے ۔
رپورٹرز :رضوان محسود ‘ علی افضل ‘ ملک عظمت ‘ شاہنواز خان آفریدی‘ گل محمد مہمند ‘ شاہ خالد ‘ نبی جان اورکزئی ‘ بلال محسود اور حکمت شاہ ۔