خیبر ایجنسی سے ملنے والے بعض نوادرات پتھر کے دور کے ہیں

شاہ نواز آفریدی
خیبر ایجنسی میں ہزاروں سال پرانے قدیمی آثار نے اس علاقے کی تاریخی حیثیت کو بڑھا دیا ہے مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان آثار کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے، خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد خان کا کہنا ہے کہ جمرود میں قدیم زمانے کے آثار بھی ملے ہیں جب انسان غاروں میں رہتے تھے ان میں زیادہ تر بدھ مت کے آثار ہیں ‘ اس کے علاوہ انگریز کے زمانے کے آثا ر زیادہ ہیں لیکن ہمیں اس زمانے کے آثار بھی ملے ہیں جب انسان غاروں میں رہتے تھے جسے پتھر کا زمانہ کہتے ہیں ‘ بدھ مت کے آثار بہت زیادہ ہیں ایک تو علی مسجد یا شپولہ سٹوپہ ہے وہ تو سڑک کے کنارے ہے مگر اس کے علاوہ بیس سے تیس تک سٹوپاز ہم نے ڈاکومنٹ کئے ہیں جو بہت بڑے بڑے سٹوپاز ہیں اور مجھے یقین ہے کہ نہ صرف خیبر ایجنسی بلکہ پورے فاٹا کا اگر مناسب آرکیالوجیکل سروے اور ڈاکومینٹیشن کی جائے تو یہاں بندوبستی علاقے سے زیادہ آثار مل جائیں گے۔
جمرود کی تاریخی علی مسجد کے قریب زیڑے کے مقام پر سڑک سے پچاس فٹ اونچے شپولہ سٹوپہ کے حوالے سے تاریخ دان ٹیپو محمد خان اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں کہ یہ دوسری صدی میں بدھ مت کے پیروکاروں نے بنایا ہے شپولہ سٹوپہ آج کل فرنٹئیر کانسٹیبلری کی تحویل میں ہے مگراس سے قبل مقامی لوگوں کی جانب سے خزانے کی تلاش میں اسے بہت نقصان پہنچاہے ‘ مقامی تاریخ دان خلیل خان آفریدی کا کہناہے کہ اس سٹوپہ کی طرح خیبر ایجنسی میں دیگرکئی آثاربھی حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں ‘ ان کا کہنا تھا کہ یہاں بہت سے آثارہیں یہاں پسد خیل کے علاقے میں اشوکا دور کی دیواریں کھنڈرات کا نمونہ پیش کر رہی ہیں کیونکہ یہاں آثارقدیمہ کی حفاظت کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ‘ ان میں قیمتی جواہرات تھے ‘نگینے تھے ‘ سٹیچوز تھے جو انگریزوں کے دور میں لوگوں نے نکالے تھے ‘پھراس علاقے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے بڑی بیدردی سے کھدائی کی جس کی وجہ سے کئی چیزیں ٹوٹ گئیں اور کئی کو اپنے مفاد کیلئے فروخت کردیا گیا۔
لنڈیکوتل ذخہ خیل قوم کے ملک محمد شفیع کا کہنا ہے کہ کھدائی کے دوران بر آمدہونیوالے بہت سے بت توڑ دیئے میں جب یہ علاقہ بنا رہا تھا تو ا س میں سے چونے سے بنے اونٹ ‘ خچر اور چھوٹے بچے برآمد ہوتے تھے یہ چیزیں ہم توڑ دیا کرتے تھے ہمیں اس کی کوئی سمجھ نہیں تھی اس لئے ہم انہیں توڑ دیتے تھے ‘ ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ بت ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ایمان خراب ہوتا ہے بعد میں لوگ انہیں نکال کراندرشہرمیں بیچ آتے تھے اب بھی یہاں بہت سے بت موجود ہیں اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے ۔
اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے درہ خیبر سینکڑوں سال سے جنگجوؤں کی آمد کا راستہ رہا ہے جس کی نشانیاں آج بھی موجود ہیں ان آثار میں جنگجو تیمورلنگ کا پھانسی گھاٹ بھی شامل ہے ‘ پھانسی گھاٹ کے حوالے سے تاریخ دان خلیل آفریدی کا کہنا ہے کہ میچنی چیک پوسٹ کے نیچے تیمور لنگ کا پھانسی گھاٹ ہے یہ 1308ء میں بنایا گیا اور 1389ء تک یہ استعمال میں رہا، یہ ایک منفرد پھانسی گھاٹ تھا کیونکہ جہاں پھانسی گھاٹ بنایا جاتا تھا تو 45 ڈگری پر ایک ہال بنایا گیا تھا اس میں مجرم کو سختی سے باندھ دیا جاتا اور پھر اسے اوپر سے چھوڑ دیا جاتا اس میں بلیڈ لگے ہوئے تھے جس سے مجرم کا قیمہ بن جاتا ‘ یہ اب بھی موجود ہے اور دوردورسے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں ۔
خیبرایجنسی کے یہ خزانے اگرچہ سابق حکومتوں اور انتظامیہ نے نظر انداز کر رکھے تھے مگراب ایجنسی کی پولیٹکل انتظامیہ نے خیبر پختونخوا آرکیالوجی ڈائر یکٹوریٹ کے تعاون سے پوری ایجنسی میں سروے شرو ع کر رکھا ہے اور ملنے والے آثار پشاور کے عجائب گھر میں محفوظ کئے جا رہے ہیں اس سروے کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالصمد نے ٹی این این کو بتایا کہ ہم نے خیبر ایجنسی کی دو تحصیلوں کا سروے کیا ہے جس کے دوران جمرود میں ہمیں 130 کے قریب آثار ملے ہیں لنڈی کوتل میں ہم نے آدھی تحصیل کا سروے کیا ہے جس میں چالیس آثار ڈاکومنٹ کئے گئے ہیں جس کی ایک رپورٹ ہم نے تیار کی ہے ہوسکتا ہے کہ خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ جلد ہی اسے کتابی شکل میں شائع کردیں ‘ علاقے میں آپریشنز کی وجہ سے ہم نے اس کام کو تھوڑا دھیرے سے کیا ہے مگر اب خیبر ایجنسی کی دیگر تحصیلوں میں بھی یہ سروے کرانے کا منصوبہ ہے تاکہ مکمل معلومات مل سکیں ۔
اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت ہر وہ آبادی‘ نشانیا ں آثار قدیمہ میں شامل ہوتی ہیں جن کی عمر سو سال سے زیادہ ہواور اس کی حفاظت متعلقہ حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔
ان قوانین کے تحت خیبرایجنسی کے سنگلاخ پہاڑوں میں بنائی گئی ریلوے پٹٹری‘یہا ں برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے زیر زمین مورچوں ‘ ہسپتالوں اورکئی قبرستان آثارقدیمہ قرار دئیے گئے ‘ مورخین کا کہنا ہے کہ خیبر ایجنسی کے ان پوشیدہ خزانوں کو کھولنے سے نہ صرف تاریخ محفوظ ہوجائیگی بلکہ ملکی اور غیرملکی لوگوں کی دلچسپی کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحت کاایک بڑامرکزبن جائیگا۔