تعلیم سے محروم قبائلی بچوں کے لئے متبادل تعلیمی نظام

قبائلی علاقوں میں گزشتہ پندرہ سال سے بدامنی کے باعث ہزاروںبچے ابتدائی تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں ‘قبائلی بچوں کی اسی تعلیمی محرومی کو دور کرنے کےلئے فاٹا سیکرٹریٹ نے فاٹا ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے تعاون سے ان علاقوں میں الٹر نیٹ لرننگ سکولز کے نا م سے ایک منصوبہ شروع کررکھاہے ‘جس کے تحت پورے فاٹا میں دوسونوسکول قائم کئے جائیں گے جن میں سے ایک سو چھیاسٹھ اس وقت فعال ہیں ‘اوران میں تقریباً سات ہزار لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں ۔
فاﺅنڈیشن سے حاصل ہونےوالی معلومات کے مطابق ان سکولز میں نو سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو داخلے دیئے جاتے ہیں ‘ اس نظام سے جماعت اول سے پنجم تک کے نصاب کے اہم حصے اکٹھے کئے گئے ہیں جو بچوں کو ایک سال میں سکھائے جاتے ہیں ‘ جس کے مکمل ہونے پر بچہ چھٹی جماعت میں داخلہ لینے کے قابل ہوتا ہے ‘ان سکولوں اور ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کے حوالے سے فاٹا ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے پلاننگ اینڈ ڈو یلپمنٹ منیجر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ایک سال کے کورس میں ہمارے پاس دو سٹیج ہیں ‘ چھ ماہ بعد پہلے سٹیج کا امتحان لیا جاتا ہے ‘ پہلے سٹیج میں چاراور دوسرے سٹیج میںپانچ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں‘نرسری سے پنجم تک کے کورس کا بغور مطالعہ کرکے اسے سکیڑدیا گیا ہے پہلے سٹیج میں اردو ‘ انگلش ‘ریاضی اورجنرل سائنس پڑھائے جاتے ہیں جبکہ دوسرے سٹیج میں ان مضامین کے ساتھ اسلامیات اضافی مضمون شامل کیا گیا ہے ۔
فاٹا ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے مطابق اس وقت پروگرام کے تحت خیبر ‘ کرم ‘ اورکزئی ‘شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ایک سو چھیاسٹھ الٹرنیٹ سکولز قائم ہیں ‘اسی پروگرام کے تحت مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں میں ساٹھ کمیونٹی بیسڈ سنٹرز میں بھی بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے‘یہ سکولز سرکاری عمارات کے بجائے لوگوںکے حجروں یا خالی گھروں میں قائم کئے گئے ہیں جن میں مقامی فریش گریجویٹس اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں ‘ان سکولوں کے قیام پرقبائلی عوام نے بہت خوشی کا اظہار کیا ہے ‘
جنوبی وزیر ستان کے حمزہ کو امید ہے کہ اس اقدام سے تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کی تعلیمی بحالی ممکن ہو جائے گی ‘ان کا کہنا تھاکہ یہ ایک بہت مفید پروگرام شروع کیا گیا ہے اورمیں اس سے مطم ¿ن ہوں کیونکہ جو بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں اور پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں یہ ان کے لئے ایک سنہری موقع ہے ۔
دوسری طرف مہمند ایجنسی کی تحصیل حلیمزئی سے تعلق رکھنے والے راج ولی کا خیال ہے کہ پانچ سال کا نصاب ایک سال میں بچوںکوپڑھانے سے ان ذہنی بوجھ پڑے گا اورہو سکتا ہے کہ یہ پروگرام کامیاب نہ ہوسکے‘ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال کا کورس بچے کو ایک سال میں پڑھانا اس کےساتھ ذہنی جبرکے مترادف ہے اس سے بہترتجویزیہ ہے کہ اچھے اور معیاری تعلیمی اداروں کی شاخیں قبائلی علاقوںمیں کھولی جائیں دوسرے یہ کہ فاٹا کے بچوںکوعمر کی مد میں رعایت دی جائے ۔
الٹرنیٹ لرننگ سکولز کے تحت لڑکیوںکےلئے الگ انسٹھ سکول قائم کئے گئے ہیں جن میں تعلیم یافتہ قبائلی خواتین کو بھرتی کیا گیا ہے باڑہ خیبر ایجنسی کے علاقے مسلم ڈنڈ میں قائم لڑکیوںکے سکول استانی سونیا خان کا کہنا ہے کہ وہ بہت محنت کر رہی ہیں اور بچوں کو بھی پڑھائی سے شغف ہے مگر انہیں گلہ ہے کہ حکومت کی جانب سے انہیں ان کی محنت کا صلہ بروقت نہیںملتا اور سکول میں پانی اوربجلی کے مسائل بھی موجودہیں
‘ ان کا کہنا تھا کہ پہلے پہل بچے پڑھائی میں تھوڑے کمزور تھے مگر اب خودلکھ پڑھ سکتے ہیں ‘ہم بھی ان کےساتھ محنت کرتے ہیں اور انہیں پڑھائی کا شوق بھی ہے ‘ سکول میں بچوں کوبجلی اورپانی کا مسئلہ درپیش ہے ‘دوسرے یہاں ہم دو استانیاں ہیں مگر تین ماہ سے ہمار ی تنخواہ بندہے ہم کہتی ہیں کہ ہمیں ہماری محنت کا صلہ بروقت دیا جائے ۔
فاٹا سیکرٹریٹ کے اس تین سالہ پروگرام کے تحت نہ صرف بچوں کی تعلیمی بحالی کی راہیں کھلیں ہیں بلکہ اس سے پانچ سو سے زائد لوگو کو استاد اور کلاس فور کی حیثیت ملازمت کے مواقع بھی میسرآئے ہیں دوسر ی طرف ڈائریکٹر ایجوکیشن فاٹا ہاشم خان کاکہناہے کہ اس پروگرام کی میعادبڑھ بھی سکتی ہے ۔
ادھرفاٹاسیکرٹریٹ کے اس اقدام کے حوالے سے جنوبی وزیرستان کے عدنان کاکہنا ہے کہ یہاں ایسے بہت سے طلباءہیںجن کی تعلیم کا سلسلہ دوسری یا تیسری جماعت میںمنقطع ہو گیا تھا اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر ہائی سکول میں داخلہ لیں مگر وہ اوور ایج ہو چکے ہیں ‘یہ پروگرام ایسے بچوںکےلئے انتہائی مفید ہے ‘کیونکہ اس سے ان بچوںکامستقبل محفوظ ہوجائے گا ۔مگرشمالی وزیر ستان کے روحیل احمد اس پروگرام سے مطم ¿ن دکھائی نہیں دیتے انکاکہنا ہے کہ جو نصاب بنایا گیا ہے وہ غلط ہے کیونکہ بچہ ایک چھلانگ میںپہلی سے پانچویں جماعت میںپہنچ جاتاہے اس دوران ان سے باقاعدہ پڑھائی کاجونصاب رہ جاتا ہے وہ بعد میںان کے لئے مشکلات کاسبب بن سکتا ہے ۔
دوسری جانب پاراچنار کرم ایجنسی کے لعل حسین کا کہناہے کہ انہیںاپنی ایجنسی میںاس پروگرام سے متعلق کوئی معلومات نہیں‘انکاکہنا تھاکہ ہمیں معلوم نہیں کہ فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے یہ پروگرام شروع کیا گیاہے یا نہیں ‘اگرابھی تک شروع نہیںکیاگیاتوہماراحکومت سے مطالبہ ہے کہ پارا چنار کرم ایجنسی میں یہ جلد از جلدشروع کیا جائے تاکہ جوٹی ڈی پیز بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھاسکیں ۔
اسی طرح اورکزئی ایجنسی کی قوم میشتی کے نصیب خان کا الٹرنیٹ لرننگ سکولزکے حوالے سے کہنا ہے کہ جوپروگرام متعارف کرایا گیا ہے ا س کااورکزئی ایجنسی میں سرے سے کوئی وجودنہیں ‘ اس لئے ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ ہمار ی ایجنسی میں یہ پروگرام جلداز جلدمتعارف کرایا جائے تاکہ ہمارے بچے بھی اس سے مستفیدہوسکیں کیونکہ ہم لوگ حالات کے مارے ہوئے ہیں ۔
شلوبرخیبرایجنسی کے حاجی مظفر خان کا کہنا ہے کہ بے گھر ی کی زندگی گزارنے کے بعدہم جب واپس آئے توایک بے بسی تھی اوردوسرے ہمارے بچے اوورایج ہونے کی وجہ سے سکولوںسے رہ گئے‘اب میراصرف ایک پوتا اس پروگرام کے تحت پڑھتاہے‘ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے تمام بچے بڑے پڑھے لکھے ہوتے میرا بھی ارمان ہے کہ میں لکھ پڑھ سکتا مگر اب وقت گزر چکا ہے ۔
الٹر نیٹ لرننگ سکولزکے حوالے سے مہمندا یجنسی کے شیر علی مومند کا کہنا ہے کہ بدامنی کی وجہ سے بچوں کا بہت سا وقت ضائع ہوگیا ہے لیکن اگر حکومت بچوں کوسہولیات اور تعلیمی ماحول فراہم کرے تو مجھے یقین ہے کہ اگر وقفہ بھی آیا ہوا ہو توہمارے طلباءاس کو پورا کرلیں گے ۔
باجوڑ ایجنسی کے علاقے سالارزئی کے رہائشی گل فراز خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ جو سنٹر کھول رکھے ہیں ان میں سے ایک سنٹر ہمارا بھی تھا اس میں ہم نے ایسے بچوں کو داخل کیا جو سکول سے محروم تھے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ خود ہمارے سکول آئے تھے جہاں انہوں نے بچوں سے عملی امتحان لیا جس پربچے بہت خوش ہوئے کیونکہ ہمارے بچوں نے جو سیکھا تھا اس کی حوصلہ افزائی کی گئی جس پر انہیںبہت خوشی ہوئی ۔
الٹرنیٹ لرننگ سکولزکی کامیابی اور عوام کے اس سے مستفیدہونے کے حوالے سے ہمارے رپورٹر شاہنواز آفریدی باڑہ خیبر ایجنسی کے چمن الٹر نیٹ لرننگ سکول مسلم ڈنڈ شلوبر کا حال احوال معلوم کیا جو سکول کی عمارت کے مالک اور استاد ہارون آفریدی کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔
ہم جب بے گھر نہیں ہوئے تھے تو میر ی دو بہنیں اورچار بھائی باڑہ کے سکولوں میں زیر تعلیم تھے جب آپریشن شروع ہوا اورہم بے گھر ہوکر کیمپوں میںچلے گئے اس کے بعد اپنے علاقے میں کبھی کبھار جانا ہوتا تھا کبھی ایک ماہ یہاں کبھی ایک ماہ وہاں ‘ ایک مقام پر ٹھہرناہمارے لئے مشکل تھا تو ایسے حالات میں تعلیم کا حصول ناممکن تھا پھر جب ہم واپس گئے تو شروع میں کچھ مشکلات تھیں تعلیم میں کچھ وقت لگ گیا جس سے یہ فکر پیدا ہوئی کہ یہ بچے اب کس کلاس سے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرینگے اور ان کا جوتعلیمی وقت ضائع ہو گیا ہے اس کو کیسے پورا کیا جائےگا کیونکہ تین چار سال بہت بڑا وقفہ ہوتاہے مگر پھر فاٹا سیکرٹریٹ والوں نے یہ ایجوکیشن سسٹم شروع کیا ان کے ساتھ ہم نے یہ بات کی کہ ہمار ی ضروریات مثلاًبلیک بورڈز ‘ کتابیں اوردیگر اشیاءہمیں فراہم کردی جائیں تو باقی محنت ہم خود کرلیں گے پھر ہم نے اراضی دی اور انہوں نے اس پر سکول بنا دیا کیونکہ ہم بھی تعلیم کے حق میں ہیںاور علاقے کے دیگر لوگ بھی یہی چاہتے ہیں ‘پھر انہوں نے ہمارا سکول رواں کردیا اور اب الحمدللہ ہمارے سکول میں ایک سر ستر بچے زیر تعلیم ہیں اور علاقے میں یہ سکول ایک اچھی شہرت رکھتا ہے ‘ یہاںایسا دوسرا سکول نہیںہوگاجیسا کہ ہم چلا رہے ہیں اور یہ کنڈنسیو کورس سسٹم کے تحت چل رہا ہے اس کی تمام ضروریا ت ہمیں فاٹا ایجوکیشن فاﺅنڈیشن والوں نے فراہم کی ہیں ‘ والدین بھی مطم ¿ن ہیں اور اس وجہ سے اس کا علاقے میں ایک اچھا اثر ہوا ہے ۔
مجھے ذاتی طور پر پہلے تین ماہ کی تنخواہ ملی مگر بعد میں تین مہینے کی تنخواہ نہیں دی گئی ‘ہوسکتاہے یہ مالی بحران کی وجہ سے ہو اورچوکیدار کی جوپوسٹ انہوں نے اپ گریڈ کی تھی وہ اس ماہ سے شروع ہوئی ہے اورعمارت کاکرایہ نہیںدیاجاتا یہ مفت ہے‘ تنخواہ بارہ ہزارماہوارہے۔
چارکتابیں ہیں جوہم بچوں کوبورڈپرلکھ کر سکھاتے ہیں اوروہ اپنے پاس کاپی کرلیتے ہیںپھر انکا ہفتہ واراورماہوارٹیسٹ لیاجاتاہے ‘بہت دلچسپ کورس ہے بچے ذہنی طور پر متاثر نہیں کرتا ‘مطلب یہ کہ بچہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں یہ نہیں پڑھ سکتا یا میں اس سے کچھ نہیں سیکھ سکتا وہ اپنی مرضی اور خوشی سے پڑھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر صبح اسمبلی ہوتی ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت کرائی جاتی ہے اس میں نعت بھی ہوتی ہے اوربچوں کی حاضری بھی روزانہ کی بنیاد پر لی جاتی ہے جبکہ داخلہ بھی قواعد کے مطابق دیا جاتاہے ۔
ہارون آفریدی کی جانب سے تنخواہ نہ ملنے کے گلہ کے حوالے سے جب ہم نے فاٹا ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ منیجر جاوید خان سے پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ حکومت سے اس ضمن میں چھیالیس ملین روپے مانگے گئے تھے مگر صرف گیارہ ملین ہی مل سکے جوہم نے صرف تنخواہوں کےلئے مختص کئے ہیں ۔
ڈائریکٹرمحکمہ تعلیم فاٹاہاشم خان آفریدی کے مطابق تین سالہ الٹرنیٹ لرننگ سکولزپروگرام کا ایک سال مکمل ہوچکاہے اور ضرورت پڑنے پر اس کی میعاد تین سال سے بھی بڑھائی جاسکتی ہے منصوبے کی مزید تفصیلات کے بارے میں ڈائریکٹر ہاشم خان کا مزیدکہنا تھاکہ فاٹاکے وہ ٹی ڈی پیز بچے جو پرائمری تعلیم سے محروم رہ گئے تھے یعنی جن کی تعلیم کا سلسلہ دوسری یا تیسری جماعت میں منقطع ہوگیاتھا توجب وہ دوبارہ داخلہ لینے سکول گئے تب ان کی عمریں بڑھ چکی تھیں اوروہ بچوںکےساتھ بیٹھ نہیں سکتے تھے ‘ ایسے بچوںکےلئے ہم نے الٹرنیٹ لرننگ سکول کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ‘ یہ سکول عام سکولوں جیسے نہیں ‘یہ ایک سو ستر سکول ہیںجن میںاس وقت سات ہزار کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں ‘الحمدللہ یہ سکول نہایت کامیابی سے چل رہے ہیں یہ لڑکو ں اورلڑکیوںدونوںکےلئے ہیں ‘ ساٹھ فیصد سکول لڑکوں اورچالیس فیصد لڑکیوں کے لئے مختص ہیں ‘ اس کو جو نام دیا گیا ہے اسی کی طرح اس کے اوقات ‘اساتذہ اور طریق کار بھی جدا ہے جن لوگو ں کی اراضی میں ہم نے یہ سکول کھول رکھے ہیں انہوں نے ہمیںدوکمرے دے رکھے ہیں اورہم نے انہیںاستادفراہم کئے ہیں پہلے جولوگ ہم جگہ دیتے تھے انہیںکوئی رقم نہیںدی جاتی تھی مگر اب اس کےلئے تین ہزار روپے مقرر کئے گئے ہیں ‘اساتذہ کی بھرتی کمیونٹی میںقائم کی گئی ویلج ایجوکیشن کمیٹی کی سفارشات پر میرٹ کی بنیاد پرکی گئی ہیں ‘ یہ اساتذہ سکولوں کے علاقے کے مقامی لوگ ہیںاگردور دراز سے بھرتی کرتے توان کےلئے مشکل ہوتی ‘یہ ایسے سکولزہیںجن کے اوقات ہم نے فلیکس ایبل رکھے ہیں چاہے وہ صبح کے اوقات ہوں یا شام کے ‘ تاکہ اساتذہ اور بچوں دونوںکو آسانی رہے ‘ باجوڑ اور مہمند میں چونکہ پہلے ہم ایک ایک پائلٹ پراجیکٹ چلا چکے تھے اوروہ بہت کامیاب رہے تھے ‘ پچیس الٹرنیٹ سکولز سے ہم ایک ہزار بچے عام سکولوں میں لائے تھے‘ چونکہ یہ بچے عام بچے نہیںہیں ان کانصاب بالکل مختلف ہے اور ان بچوں کی عمریں بھی زیادہ ہیں ‘ اس کےلئے ہم نے اساتذہ کو تربیت دے کرتیار کیا کہ ان بچوںکوعام بچوںکی طرح ٹریٹ نہ کیا جائے ‘ہر ایجنسی میں ایسے بیس پچیس سکولز ہیںوہاںایک سپروائزرہوتاہے وہ روزانہ سکولوں میںجاتا ہے اورہر پندرہ روز بعد اپنی رپورٹ بمعہ تصاویر دیتا ہے ‘ کہیںتویہ پروگرام ہماری توقعات سے بھی زیادہ کامیاب رہا ہے ‘ ایسے کیس اکا دکاہی سامنے آئے ہیں کہ یہ سکول ایک آدھ ماہ چلنے کے بعد بند ہوئے ہوں مگر ان کوہم پھر دوسرے علاقے میں منتقل کردیتے ہیں جب بچے ان سکولز سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو انہیں پانچویں پاس کے برابر سمجھا جاتاہے وہ پھر چھٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں ‘ یہ ابتدائی طور پر تین سال کامنصوبہ ہے ‘ ایک سال گزر چکا ہے اوردو باقی ہیں ‘پھر ہم دیکھیں گے کہ اگر فرض کیا کہ ایسے بچے ہوں جو تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہوں اور انہیں ایسے مسائل درپیش ہوں تواس پروگرام کی میعاد بڑھائی بھی جا سکتی ہے ۔
نوٹ :یہ مضمون ریڈیو ٹی این این کے پروگرام ”دمنزل پہ لور “ سے لیا گیاہے جس میں قبائلی علاقوںکے بے گھر ہونےوالوں کی زندگی اور دوبارہ واپس آنےوالے لوگوں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے یہ پروگرام ریڈیو ٹی این این کے پروڈیوسرز شان محمد اور سلمان احمد نے تیار کیا ہے جو فاٹا اورخیبر پختونخوا کے پانچ ریڈیو سٹیشنز سے نشرہوتاہے۔
رپورٹرز :شاہ خالد شاہ جی ‘ گل محمد مہمند ‘ شاہنواز آفریدی‘ ملک عظمت حسین ‘ علی افضل افضال ‘ نبی جان اورکزئی ‘ رضوان محسود ۔