بدامنی سے متاثرہ قبائلی عوام کےلئے وزیر اعظم صحت کارڈ، درپیش مسائل ومطالبات

وفاقی حکومت نے ملکی سطح پر نادار افراد کو علاج معالجے کی مفت سہولیات کی فراہمی کے لئے31دسمبر 2015ءکو وزیر اعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام شروع کیا ہے اس پروگرام کے تحت غریب خاندان کی صحت پر ایک سال میں تین لاکھ روپے خرچ کئے جاتے ہیں ‘ تین فیزز میں تقسیم اس پروگرام کے پہلے مرحلے میںملک کے دیگر بیشتر علاقوں کی طرح یہ سہولت اب خیبر پختونخوا اورفاٹا میں بھی دستیاب ہے فاٹا سیکرٹریٹ سے ملنے والی معلومات کے مطابق وزیر اعظم صحت کارڈ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے کے تحت منتخب نادار اورغریب عوام کو دیا جاتا ہے جس کے تحت اب تک باجوڑ ایجنسی کے تقریباً 82ہزار اور خیبر ایجنسی کے ساڑھے سات ہزار خاندانوںکو یہ کارڈمل چکے ہیں۔
عالم گودر خیبرایجنسی کے رہائشی محبت خان کاکہنا ہے کہ اپنے علاقوںکولوٹنے والے ٹی ڈی پیز کےلئے یہ ایک احسن حکومتی اقدام ہے لیکن کارڈ کے استعمال کےلئے صرف ایک سال کی مدت مقر رکی گئی ہے اس میں اضافہ کیا جائے ‘ان کاکہنا تھاکہ ابھی تک ضرورت نہ پڑنے کی وجہ سے ہم نے یہ کارڈاستعمال نہیںکیا اس لئے اگر اس کی میعاد میں اضافہ کردیاجائے تو یہ اچھی بات ہوگی ہم اسے دو سال بعد بھی استعمال کرسکیں گے ‘ہمیں غربت کا سامنا ہے ‘راج مزدوری کرتا ہوں کبھی کام ملتا ہے کبھی نہیںملتا ‘ غربت کے باعث یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہیں ‘ہم یہ پروگرام متعارف کرانے پر حکومت اور متعلقہ حکام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
محبت خان اگرچہ کارڈ ملنے پرخوش ہے تو شاگو باجوڑ ایجنسی کے سلیم اللہ کوگلہ ہے کہ کارڈ کے حصول کا طریق کار بہت مشکل ہے اوروہ کارڈ کے ذریعے علاج معالجے کی سہولتوں سے بھی مطمن نہیں اس لئے وہ حکومت سے اس ضمن میں نقد مالی امدادکا مطالبہ کرتے ہیں انکاکہناتھاکہ کارڈکا حصول بہت مشکل ہے اس کے لئے اپنے مختص سنٹرہیںوہاںجاکرترلے منتیںاورسفارشیںکرواکے کارڈملتا ہے ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جس آپریشن پر سات یا آٹھ ہزار روپے خرچہ آتاہے وہیں آپریشن جب کارڈکے ذریعے کروایا جاتاہے تواس پر بیس سے پچیس ہزار روپے کی لاگت آتی ہے تو یہ باقی کی رقم فضول ضائع ہو جاتی ہے اس لئے اگراس کارڈکے بجائے غریب عوام کوسالانہ یا ماہانہ بنیادوں پر اس سلسلے میں نقد مالی امداددی جائے تومیرے خیال میں یہ زیادہ بہتر ہوگا ۔
باجوڑ ایجنسی ہی کے علاقے ڈاگ علیزئی کاپاﺅں سے معذور رہائشی گلزادہ صرف اس وجہ سے کارڈ کے حصول سے محروم ہے کہ یہ کارڈشناختی کارڈمیں موجود خاندان نمبرکی بنیادپردیاجاتاہے ‘ گلزادہ کا کہنا ہے کہ اس کا اپناخاندان ہے اوراسے غربت کا سامناہے مگر اس کے والد کو کارڈ ملنے کی وجہ سے اسے کہا گیا ہے کہ وہ کارڈ لینے کا مستحق نہیں اس طرح بہت سے غریب لوگوںکویہ مسئلہ درپیش ہے ‘ ان کا کہنا تھا کہ میں ڈس ایبل ہوں مگر پروگرام والے مجھے کہتے ہیں کہ تمہارے والد کو کارڈمل چکا ہے توچونکہ آپ کا خاندان ایک ہی ہے تو یہ آپ کو نہیں مل سکتا بلکہ باجوڑ میں ساڑھے سات ہزار معذور ہیں ا ن میں سے کسی کو بھی نہیں ملا ۔
دوسر ی جانب باڑہ خیبرایجنسی کاعظمت خان کارڈ ملنے کے باوجود اس سہولت سے مایوس ہے اوراس کا کہنا ہے کہ اگر ایک طرف بدامنی سے متاثرہ علاقوں میں علاج معالجے کی سہولیات میسرنہیں تو دوسری جانب یہ کارڈپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں میں قبول نہیں کیا جاتا اور بار بار سر پھٹول کے باوجودبھی نجی ہسپتالوںمیں بھی کارڈکے ذریعے علاج کی سہولت فراہم نہیںکی گئی ‘ ان کاکہنا تھاکہ میں کارڈپرعلاج کی غرض سے رحمان ہسپتال گیا مگر وہاںمجھے کہا گیا کہ یہ پیکج پہلے ہمارے پاس تھا مگر اب کسی اور ہسپتال کومنتقل ہو گیا ہے ‘دوسرے ہسپتال گیا توانکا بھی یہی جواب تھا میں پھر پمزگیا توانہوںنے کہا کہ ہمارے پاس یہ پیکج تھا مگر اب یہ ختم ہوچکا ہے تومیں نے کہاکہ یہ کس طرح کاصحت کارڈہے کہ ہمیں اس کے فوائد بتائے گئے تھے مگر وہ ہمیں ملے نہیں بہر حال میںمایوس لوٹا ا ور میرا کام نہیں ہوسکا ‘ ہمار ا مریض نازک حالت میں ہے شوگر کی وجہ سے اس کا پاﺅں خراب ہو چکاہے اور میں اس پر ابھی تک اسی ہزار روپے لگا چکا ہوں ‘ میں نے کارڈ پر علاج کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکا اس بار جو مایوس لوٹا ہوںتو میں نے سوچا کہ اس پرعلاج نہیں ہوتا تو پھر میں نہیں گیا ۔
دوسری طرف پروگرام کے حکام کا کہنا ہے کہ پروگرام کےساتھ کارڈکے ذریعے رجسٹرڈ ہونےوالے سرکاری اورنجی دونوںقسم کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں اوراس کے ذریعے کارڈکا حامل اپنا اپنی بیوی اوربچے کے علاج کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں ۔
خیبراور باجوڑ ایجنسی کی طرح شمالی اور جنوبی وزیر ستان کےساتھ ساتھ کرم ‘ اورکزئی اورمہمند ایجنسی کو واپس جانے والے ٹی ڈی پیز تاحال کارڈ دینے کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا اس حوالے سے شمالی وزیر ستان کے علاقے میرانشاہ کے طارق داوڑ کا کہنا ہے لوگوںکاروزگاتھاتو علاج کےلئے کچھ توہوجاتا تھا مگر اب تونوے فیصد لوگ بےروزگارہیں اس لئے اس بہت ضرورت ہے کیونکہ لوگ بہت غریب ہیں اورمیں تو یہ کہتا ہوں کہ صحت کارڈ کی سب سے پہلے ضرورت ہم لوگوںکوہے ۔
دوسری جانب جنوبی وزیر ستان کی تحصیل سراروغہ سے تعلق رکھنے والے فدا محمد کا کہنا ہے کہ صحت کارڈ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہاں لوگ مالی و جانی طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہ کارڈ لوگوں کو فراہم کیا جائے ۔
اورکزئی ایجنسی کی قوم ربیعہ خیل کے بسم اللہ خان کا کہنا ہے کہ دیگر ایجنسیوں میں لوگوں کو صحت کارڈ فراہم کئے گئے مگر اورکزئی میں ابھی تک کسی کو بھی یہ کارڈ نہیں دیا گیا ‘ بیماریاں زیادہ ہوگئی ہیں کسی کو کینسر ہے کسی کو ہیپاٹائٹس ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں بھی یہ کارڈ فراہم کیاجائے تاکہ ہم غریب لوگوں کا علاج بھی مفت ہوسکے ‘ ہم صحت کے ضمن میں اپنا حصہ مانگتے ہیں ۔
کرم ایجنسی کی بنگش قوم قوبت شاہ خیل سے تعلق رکھنے والے سید سر تاج حسین کا وزیر اعظم صحت کارڈ کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہمیں کسی نے کسی قسم کے کارڈ نہیں دئیے میں آپ کو اپنی مثال دونگا میں معذور ہوں مستحق ہوں اور حق رکھتا ہوں کہ کارڈ دیا جائے ‘ اگر یہ کارڈ میرے جیسے معذوروں کو ملیں تو اچھا ہوگا ۔
مہمند ایجنسی کی تحصیل حلیمزئی کے ملک نثار بھی خیبر پختونخوا اور فاٹا کی بعض ا یجنسیوں کی طرح اپنے علاقے کے عوام کے لئے صحت کارڈ کا مطالبہ کرتے ہیں ‘ ان کا کہنا ہے کہ چاہئے یہ کہ ہمیں بھی یہ کارڈ فراہم کیاجائے جیسا کہ خیبر پختونخوا میں دیاگیا ہے دوسرے یہ سیاسی پسند نا پسند سے بالا تر ہو آزادانہ طور پر دیا جائے تاکہ غریب اور مستحق افراد کو ان کا حصہ مل سکے ‘ اگرکوئی شخص کارڈ بنوانا چاہتا ہے اور اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تو اگر وہ سیاسی ورکر ہوتا تو اچھا ہوتا لیکن اگر وہ پارٹی ورکرنہیں اور اسے کارڈ نہیں ملتا تو یہ نا انصافی ہے اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ ا سے منصفانہ اور آزادانہ طور دیا جائے اور یہ ہم قبائلیوں کے لئے بہت ضروری ہے۔
وزیر اعظم کے صحت کارڈ پروگرام سے متعلق عوام کے گلے اور مطالبات اپنی جگہ مگر باجوڑ اور خیبر ایجنسی میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس کارڈ کر بروئے کار لاتے ہوئے بہت سے روپوں میں ہونے والا علاج مفت کرایا ہے باڑہ خیبر ایجنسی سے ہمارے رپورٹر شاہ نواز آفریدی نے ایسے ہی ا یک شخص گل افضل سے بات چیت کی ہے ‘ گل افضل نے وزیر اعظم صحت کارڈ کیسے حاصل کیا اور اس کے ذریعے اس نے کس قسم کے فوائد حاصل کئے اس کا حال گل افضل کچھ یو ں بیان کرتا ہے
“ہم قمبر آباد مارکیٹ میں واقع سنٹر میں گئے جہاں شناختی کارڈ کی بنیاد پر صحت کارڈ جاری کئے جا رہے تھے ‘ وہاں میں نے پوچھا تو کہا گیا کہ آپ کا کارڈ آچکا ہے جو میں نے لے لیا ‘ میں بہت ہی نادار اور غریب انسان ہوںایک مارکیٹ میں چوکیدارہ کرتا ہوں ‘ مجھے عارضہ قلب لاحق ہے میں رحمان ہسپتال گیا تو انہوں نے میرا چیک اپ کیا اور کہاکہ آپ کی شریانیں بند ہوچکی ہیں اس لئے بائی پاس آپریشن کرائیں میں نے ان سے کہا کہ اگر ادویات سے کچھ ہو سکتا ہے تو کردیں میں بائی پاس کا تھوڑا انتظار کر لونگا ‘ انہوں نے پھر مجھے ماہر ڈاکٹر کے پاس بھجوایا جہاں دوسرے روز میری انجیو گرافی کی گئی ‘ مجھے بہت چکر آتے تھے مگر علاج کی استطاعت نہیں رکھتا تھا جب یہ کارڈ ملا تو کہا گیا کہ اس پر علاج مفت ہوتا ہے تو پھر اس بناءپر میں اس کارڈ کی وجہ سے ہسپتال گیا ‘ علاج رحمان ہسپتال میں ہوتا ہے اور جگہوں کا مجھے علم نہیں میں بھی پہلی ہی بار وہاں گیا ہوں ‘ میرا بیٹا تعلیم یافتہ ہے اس نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے کا ٹ لئے گئے ہیں مجھے تو کچھ پتہ نہیں ‘ علاج کرانے سے مجھے اب فرق محسوس ہوتا ہے میں پہلے سے بہتر ہو گیا ہوں ‘ اب پیدل چلنے سے میرے دل کی طاقت جلد کم نہیں ہوتی ‘ وزیر اعظم صحت کارڈ پروگرام غریب عوام کےلئے ایک بہت اچھا اقدام ہے کیونکہ غریب لوگ اکثر علاج کی استظاعت نہیں رکھتے” ۔
وزیر اعظم صحت کارڈ کے حوالے سے عوام کے مسائل ا ور مطالبات کے پر جب ہم نے فاٹا سیکرٹریٹ میں ہیلتھ سیکٹر ریفارمز یو نٹ کو آرڈی نیٹر اور وزیر اعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام کے انچارج ڈاکٹر عبدالقادر خان اورکزئی سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ قریبی چند دنو ںمیں یہ پروگرام فاٹا کے باقیماندہ علاقوں میں بھی شروع کردیاجائے گا اور حکومت کی کوشش یہ ہے کہ بدامنی سے متاثرہ ان ایجنسیوں کے تمام نادار خاندانوں کو اس میں شامل کیا جائے ‘ عوام کے مسائل اور پروگرام کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے باجو ڑ ایجنسی اور خیبر ایجنسی میں وزیر اعظم صحت کارڈ ا س لئے دیئے گئے کیونکہ ان علاقوں میں دیگر ایجنسیوں کی نسبت شروع میں امن وامان کی صورتحال بہتر تھی اور ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹر بھی موجود تھے اب ہمیں امید ہے کہ آئندہ ماہ سے یہ پروگرام باقیماندہ قبائلی علاقوں میں بھی شروع کردیا جائے گا پھر اعلانات کئے جائیں گے اور ہر کوئی اپنا شناختی کارڈ نمیر 8500پر ایس ایم ا یس کرے گا تو اسے موبائل کے ذریعہ ہی جواب مل جائے گا کہ وہ حق دار ہے یا نہیں اگر کوئی حقدار ہوا تو اسے میسج مل جائے گا کہ فلاں سنٹر سے اپنا کارڈ وصول کرلو جب کارڈ مل جائے تو اس کے بعد یہ میں آپ (ٹی این این ) کے ذریعے عوام کو بتا رہا ہوں کہ نمبر پر وہ اپنے کارڈ کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں اس نمبر پر وہ اپنی شکایات بھی درج کراسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ کسی کے کارڈ میں کس قدر رقم بچ گئی ہے اور کتنی رہتی ہے اور اگر کسی کو ہسپتال یا انشورنس کے عملے کے بارے میں کوئی شکایت ہو جیسا کہ کسی کو یہ شکایت ہو کہ علاج صحیح طور پر نہیں ہوا یا زیادہ رقم کی کٹوتی کی گئی تو اس کی شکایت بھی ا سی نمبر پر کی جاسکتی ہے
آنکھ ‘ ناک ‘ گلے کا آپریشن یہاں تک کہ دل کے سٹنٹ ‘ انجیو گرافی یا انجیو پلاسٹی کرانا ہو ‘ گردے فیل ہو جائیں یا ہرنیا کا آپریشن ہو یا بواسیر کا ‘ ہاتھ ٹوٹ جائے یا روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹ ہو اور یا اگر کوئی جل جائے یعنی ان سب بیماریوں کا علاج اس کارڈ کے ذریعے کرایا جاسکتا ہے ماسوائے اس چند ایک بیماریوں کہ جس کا علاج اس کارڈ کے ذریعے ممکن نہیں جیسا کہ کوئی خود کو چوٹ لگا لے یا کاسمیٹکس سرجری وغیرہ یہ چند ایک ایسی بیماریاں ہیں جنہیں عالمی سطح پر انشو رنس کمپنیاں کور نہیں کرتیں باقی جس قدر بیماریاں انسان کو لاحق ہوسکتی ہیں وہ تمام اس میں کور ہیں ابھی تک ان کا ایک وضع کردہ طریق کار ہیں جوہسپتال انشورنس کمپنیوں کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں وہاں یہ کارڈ کام کرتا ہے ہر ایک ہسپتال میں یہ کارڈ کام نہیں کرتا باقی رہ گئے سرکاری ہسپتال ‘ تو اب تک حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی طریق کار واضح نہیں تھا کیونکہ سرکاری ہسپتالوں کے نجی کمپنیوں کےساتھ کاروبار کی گنجائش نہیں تھی مگر اب اس کی اجازت دے دی گئی اور اب کے بعد جو سرکاری ہسپتال خود کو ان انشورنس کمپنیوں کے ساتھ رجسٹرڈ کرائے گا وہاں یہ کارڈ کام کرے گا ‘چاہئے تو یہ تھا کہ بدامنی کے دوران جو متاثرہ ٹی ڈی پیز حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہو ئے تھے ان کو حقدار سمجھا جاتا مگر حکومت نے اس حوالے سے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھایا ‘ حکومت یہ کہتی ہے کہ اس کارڈ کے ذریعے ایک خاندان میں تین لاکھ سالانہ تک کے اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے مگر اب حکومت کا کہنا ہے کہ ان تین لاکھ کو چندروز میں بڑھا کہ چھ لاکھ کر دیاجائے گا تو پھر حکومت ایک خاندان پر سالانہ چھ لاکھ روپے خرچ کرے گی دوسرے یہ کہ فی الحال تو یہ کارڈ باجوڑ اور خیبر ایجنسی تک محدود ہے مگر ایک آدھ ماہ میں یہ باقی تمام فاٹا اور ایف آر کے علاقوں تک توسیع پا جائے گا ۔
نوٹ: یہ مضمون ریڈ یو ٹی این این کے پر وگرام ”دمنزل پہ لور “ سے لیا گیا ہے جس میں قبائلی علاقوں کے بے گھر ہونے والے افراد کی زندگی اور واپس آنے والوں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے یہ پروگرام ریڈ یو ٹی این این کے پر وڈیوسرز شان محمد اور سلمان احمد نے تیار کیاہے جو فاٹا اور خیبر پختونخوا کے پانچ ریڈیو سٹیشنز سے نشر ہوتاہے۔
رپورٹرز :شاہ خالد شاہ جی ‘ نبی جان اورکزئی ‘ شاہنواز آفریدی ‘ گل محمد مہمند ‘ ملک عظمت حسین ‘ علی افضل افضا ل اور رضوان محسود ۔