اس بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
آصف جاوید ‘ افتخار خان
خیبر پختونخوا میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی تقریباً تمام نجی تعلیمی اداروں نے اپنی فیسوں میں من مانا اضافہ کر دیا ہے اور صوبائی حکومت اس کے سدباب میں ابھی تک ناکام نظر آرہی ہے ‘ والدین کا کہنا ہے کہ ماہانہ فیسوں کے علاوہ نجی تعلیمی ادارے دیگر مختلف طریقوں کے ذریعے بھی ان سے پیسے بٹورتے ہیں ۔
سہیل خان نامی ایک شخص جو پشاور میں اپنا ذاتی کاروبار کرتے ہیں اور ان کے چار بچے نجی سکولوں میں زیر تعلیم ہیں کا کہنا ہے کہ سکول فیسوں میں روز افزوں اضافے سے وہ تنگ آچکے ہیں اور اس پر مجبور ہو چکے ہیں کہ اپنے بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع کرادیں ‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے اب فیسوں میں سالانہ کے بجائے ششماہی اضافہ کررہے ہیں ‘ انہوں نے اس امر پر غصے اور ناراضگی کے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا کہ نجی تعلیمی ادارے ماہانہ فیسوں کے علاوہ پروموشن فیس اور سکیورٹی کے نام پر بھی فیسیں وصول کر رہے ہیں لیکن پورے سکول کی سیکیورٹی کے لئے صر ف ایک چوکیدار تعینات کیا جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ اتنی فیسیں لینے کے باوجود ہر طالب علم کیلئے ٹیوشن فیس ادا کرنا لازم ہے جب بچہ اپنے طور پر ٹیوشن پڑھتا ہے تو پھر اس مد میں فیس لینے کی کیا تک بنتی ہے ؟ان نجی تعلیمی اداروں سے پوچھنے والا کوئی نہیں جبکہ یہ ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ ان سے باز پرس کرے ۔
جب بچہ اپنے طور پر ٹیوشن پڑھتا ہے تو پھر اس مد میں فیس لینے کی کیا تک بنتی ہے:سہیل خان
سہیل خان کی طرح نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے سے نالاں وکلاء کے ایک گروپ نے بھی 19اپریل کواس کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ‘ رٹ دائر کرنے والے وکیل فضل شاہ مومند نے اس حوالے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہر سال پچاس اور سو فیصد اضافہ غیر قانونی ہے اور دوسرے یہ کہ نجی تعلیمی اداروں نے پروموشن فیس کے نام پر طلباء سے الگ داخلہ فیس لینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے یہ فیس وصول کرنے کی منطق سمجھ میں اس لئے نہیں آرہی کہ ایک بچہ جب سکول میں داخل ہے تو اسے دوبارہ داخلہ کی کیا ضرورت ہے ؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ نجی تعلیمی ادارے پیسہ کمانے کی مشینیں بن چکے ہیں اور ہم نے یہ رٹ عام آدمی کے مفاد میں دائر کی ہے تاکہ عدالت عالیہ فیسوں میں اضافہ کو کا لعدم قرار دے اور حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ اس ضمن میں مناسب قانون سازی ہو سکے اور ایک ادارہ قائم ہو سکے ۔
ریگو لیٹری اتھارٹی کے لئے کوششیں اور مسائل
خیبر پختونخوا میں تعلیمی بورڈز کے ساتھ رجسٹرڈ 25ہزار سے زائد نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کا تعین ‘ فیسوں میں اضافے کا طریق کار ‘ کورس کے انتخاب ‘ اساتذہ کی قابلیت جانچنے اور دیگر امور کی نگرانی اور باز پرس کیلئے کوئی ادارہ موجود نہیں ‘ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کی نگرانی کیلئے ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کیلئے قانونی مسودہ تیار کیا تھا مگر اس پر باقاعدہ قانون سازی نہ ہو سکی ‘ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے بھی اقتدار میں آکر اس قسم کی قانون سازی کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر تا دم تحریر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔
صوبے کے تعلیمی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی محمد ہارون خان کا کہنا ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی کے لئے قانون سازی نہ کرنے میں حکومتی لاپرواہی اور نجی تعلیمی اداروں کے دباؤ کے ساتھ ساتھ یہ وجہ بھی ہے کہ صوبائی اسمبلی میں ایسے افراد موجود ہیں جو پہلے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے مگر جب بہت مجبور ہوئے تو اب ان کی یہ کوشش ہے کہ ایسا قانون بنے جس میں ان کے مفادات پر ضرب نہ پڑے ۔
ٹی این این کے ساتھ انٹرویو میں ابتدائی و ثانوی تعلیم کے صوبائی وزیر محمد عاطف نے قانون سازی میں ارکان اسمبلی کی جانب سے رخنے ڈالنے کے خیال کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ارکان اسمبلی کا اس ضمن میں کوئی دباؤ ہوتا تو اب بھی یہ قانونی مسودہ تیار نہ ہوتا کیونکہ اسمبلی کے ارکان وہی پرانے ہیں ‘ عاطف خان کا مزیدکہنا تھا کہ ریگولیٹری اتھارٹی کیلئے قانونی مسودہ تیار ہے مگر اس میں تاخیرنجی تعلیمی اداروں اور والدین کے تحفظات دور کرنے کی حکومتی کوششوں کی وجہ سے ہوئی ‘ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم اور میں نے خود اس سلسلے میں نجی سکول مالکان اور والدین کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں اور ان کے تمام تحفظات کو دور کر کیا ہے اور بہت جلد ہی اس ضمن میں قانون سازی کی جائے گی ۔
دو سری جانب آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے جنرل سیکرٹری سر فراز نواز کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ریگولیٹری اتھارٹی کے حوالے سے بنائے گئے قانونی مسودہ پر ان کے اعتراضات اب بھی برقرار ہیں ‘ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم نے ان کو ایک نجی ہوٹل میں میں اس مسودہ پر بریفنگ دی ‘ چاہیے تو یہ تھا کہ ہمیں پہلے مسودہ دیا جاتاتاکہ اس کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس پر اپنا موقف دیتے ‘ سرفراز نواز نے کہا کہ قانون کے تحت حکومت نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کے تعین اور اس میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعیناتی اور ان کو ملازمت سے برطرف کرنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے جو ہمیں کسی طور بھی قبول نہیں ‘ انہوں نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی نتائج آتے ہیں تو بورڈ میں ٹاپ پوزیشنز پر نجی تعلیمی اداروں کے طلباء ہی آتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ جیسے بھی ہیں پر ہم ان سے کام لینا جانتے ہیں ۔سر فراز نواز نے کہا کہ حکومت ہمیں کوئی فنڈ نہیں دیتی تو پھر نجی تعلیمی اداروں کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں رکھتی ۔
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن خیبرپختونخواکے جنرل سیکرٹری سرفرازنوازٹی این این کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے
نجی تعلیمی اداروں کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی کا قانونی مسودہ تیار کرنے میں کردار ادا کرنے والے سابق چیف پلاننگ آفیسر جمال الدین کا کہنا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کو اب ریگولیٹری اتھارٹی کی مخالفت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں کیونکہ اتھارٹی کے زیادہ تر عہدیدار ان کے اپنے بندے ہونگے اور ان پر حکومت کا کوئی دباؤ نہیں ہوگا انہوں نے کہا کہ گیارہ یا بارہ افراد پر مشتمل جو اتھارٹی قائم ہو گی اس میں چار یا پانچ افراد نجی تعلیمی اداروں سے ہونگے اور اس میں حکومت اور والدین کے نمائندے بھی شریک ہونگے ‘ سابق چیف پلاننگ آفیسر کا مزید کہنا تھا کہ اس اتھارٹی پر حکومت کا اتنا اثر رسوخ نہیں ہوگا جتنا کہ دیگر اداروں پر ہوتا ہے بلکہ اس میں شامل تمام نمائندے مل کر صلاح مشورے سے تمام امور انجام دینگے ‘اتھارٹی کے کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ سکولوں کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کرکے ہر کیٹیگری کے لئے الگ فیسوں اور ٹیکسوں کا تعین کرے گی اس کے علاوہ یہ اتھارٹی نجی تعلیمی اداروں کے کورس ‘ اساتذ ہ کی قابلیت اور ان کی ملازمت کے حوالے سے حقوق پر بھی نظر رکھے گی۔
حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون نجی تعلیمی اداروں کے صلاح و مشورے سے بنایاجا رہا ہے اور دوسرے یہ کہ ریگولیٹری اتھارٹی میں بھی زیادہ نمائندگی دی گئی ہے تو لازمی بات ہے کہ نجی تعلیمی اداروں نے اس میں اپنے مفادات کا ضرور تحفظ کیا ہو گا
خیبر پختونخوا میں 5سے 16سال تک کی عمر کے تقریباً72لاکھ بچے سکول جاتے ہیں جن میں محکمہ تعلیم کے مطابق 42لاکھ سے زائد بچے سرکاری سکولوں میں داخل ہیں ‘ اسی طر ح پرائیویٹ سکولز کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری سرفرازنواز نے دعویٰ کیا ہے کہ نجی سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد 31لاکھ تک ہے اور اس طرح نجی ادارے تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کر ر ہے ہیں مگر حکومت کی جانب سے بے جا تنگ کرنے پر ان نجی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے ۔
والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں کی ابتر حالت کے باعث نجی تعلیمی اداروں کو بھجوانے پر مجبور ہیں اس لئے حکومت نجی اداروں
کو کنٹرول کرنےاور سرکاری سکولوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی حالت زار بھی بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرے۔